کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 116
سنتِ نبویہ سے منحرف فرقے بے حد فخر کرتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اس بات کے مدعی بھی ہیں کہ یہ خلاف سنت روش اسلامی زہد ہے۔ان لوگوں نے اس باب میں ایسے ایسے خود ساختہ افسانے بنا رکھے ہیں ۔
جن کا اسلام کے ساتھ یقینا کوئی تعلق نہیں اور اس باب میں ان لوگوں نے عجیب و غریب مواعظ ونصائح اور وصایا تراش رکھے ہیں ۔ذیل میں ان حیرت انگیز اقوال کاایک نمو نہ پیش کیا جاتا ہے:
٭ جس نے بھی عورتوں اور کھانے کی لذت ترک کر دی اس سے کرامتوں کا ظہور ہو کر رہے گا۔
٭ جس نے بیوی کرلی اس نے دنیا اپنے گھر میں داخل کرلی۔ پس شادیاں کرنے سے بچو۔[1]
٭ جب تک کوئی آد می اپنی بیوی کو یوں چھوڑ نہ دے کہ جیسے وہ بیوہ اور اس کے بچے یتیم ہوں وہ صدیق کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا اور ابھی تک وہ بس باتوں کی حد تک ہے حقیقت تک نہیں پہنچا۔
٭ جو عورتوں کی رانوں کا عادی ہوگیا وہ فلاح نہ پائے گا۔
٭ جس نے بھی شادی کرلی اس نے دنیا سے دل لگالیا۔ [2] وغیرہ وغیرہ
بے شک یہ عجیب و غریب اقوال اسلام کے معتدل اور متوسط مزاج کے سخت خلاف ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘ [3]
خلاصہ یہ ہے کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا زہد کتاب وسنت کاپابندتھا اوراس بابت آپ کی طرف منسوب متعدد واقعات اور اقوال، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت کے مخالف ہونے کی بنا پر پایہ صحت کو نہیں پہنچتے۔ مال جمع کرنے کی بابت آپ کا زہد ہمارے موجودہ دور کے حکمرانوں کے بالکل برعکس تھا۔ خلافت قبول کرتے وقت آپ کا غلہ ہزار دینار کا تھا جب کہ وفات کے وقت اس کی مقدار چار سو دینار تک رہ گئی اور اگر مزید زندگی پاتے تو شاید یہ مقدار بھی باقی نہ رہتی۔ [4] کیونکہ آپ بیت المال سے تنخواہ نہ لیتے تھے۔ [5]بے شک آپ اپنے زمانے کے زاہد تھے اگر چہ سب سے بڑے زاہد نہ بھی تھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ دنیا اتنا خوش نہیں کرتی جتنا غم لاتی اور رلاتی ہے۔ یہ بہت تھوڑا خوش کرتی ہے اور لمبا غم دیتی ہے۔[6]
آپ کے زہد کے بے شمار واقعات ہیں ۔ چنانچہ شیخ ابوحفص عمربن محمد خضر نے اس بابت ۲۸ واقعات نقل کیے ہیں ۔[7] سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ زہد کے اس بلند مرتبہ تک جاپہنچے تھے۔ اور انہوں نے خود کو زاہدوں
[1] ہمارے اس دور میں ایک نام نہاد مبلغ جماعت کے بھی معیشت وتجارت، معاش واقتصاد، تدبیر منزل، امور مملکت، معاشرتی واز دواجی زندگی، بیو ی بچوں اور قرابت داروں کے بارے میں ایسے ہی گمراہ، بدعتی اور خلاف کتا ب وسنت افکار ونظریات ہیں ۔ (مترجم)
[2] الطبقات للشعرانی: ۱/۳۴
[3] فتح الباری علی صحیح البخاری: ۹/۱۰۴
[4] حلیۃ الاولیاء: ۵/۲۵۷۔
[5] سیرۃ عمر لابن الجوزی،ص: ۱۸۶۱
[6] النموذج الا داری المستخلص من ادارۃ عمر،ص: ۱۵۱
[7] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر بن عبدالعزیز:۱/۳۶۶۔ ۳۷۸