کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 115
ہوتے تھے جن میں سرفہرست امر خلافت تھا۔ اور نہ آپ دنیا کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے پر کسی قسم کا غم محسوس کرتے تھے۔ اسی لیے آپ نے قدرت کے باوجود دنیا جمع نہ کی اور امور آخرت میں اور رب کے ہاں موجود نعمتوں کے پانے میں مشغول ہوگئے۔[1] مالک بن دینار کہتے ہیں : ’’لوگ کہتے ہیں کہ مالک بن دینار زاہد ہے،حالانکہ زاہد تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تھے جن کے پاس دنیا چل کر آئی اور انہوں نے دینار کو چھوڑ دیا۔‘‘[2] ابن عبدالحکم کہتے ہیں : جب آپ نے خلافت سنبھالی تو دنیا سے زہد اختیار کرلیا۔ اور اپنی ہر چیز کو ترک کر دیا اور طرح طرح کے کھانے ترک کر دیئے جب آپ کے لیے کھانا تیار کیا جاتاتو اسے کسی برتن میں ڈال کر ڈھانپ دیا جاتا۔جب آپ آتے تو برتن کا سر پوش ہٹا کر جو ہوتاکھالیتے۔[3] آپ کھانے کا کوئی خاص اہتمام نہ کرتے ہاں جس سے بھوک اتر جائے اور کمر سیدھی ہوجائے اس کو کافی سجھ لیتے۔ سالم بن زیاد کے اثر میں ہے کہ آپ اپنے گھر والوں کے صبح وشام کے کھانے میں روزانہ دو درہم خرچ کر تے تھے۔[4] لباس موٹا جھوٹا ہوتا۔ گزشتہ حکمرانوں کی طرح زرق برق لباس کا آپ کے ہاں تصور تک نہ تھا۔ اس لیے آپ نے گزشتہ امراء کی سب فضولیات کوبیچ کر ان کی قیمت بیت المال میں جمع کرادی تھی۔[5] باندیوں اور غلاموں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جو باندی کسی سے ناحق لی ہوئی تھی اسے ا سکے مالک تک پہنچا دیا۔ جبکہ غلاموں کو اندھوں ، بے بسوں اور محتاجوں میں تقسیم کردیا۔ آپ عیش وعشرت، فخر ومباہات اور فضول خرچی کے سب کاموں کے سخت خلاف تھے۔[6] اب آپ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی سن لیجئے، ابن عبدالحکم کی روایت کہ آپ اہلیہ فاطمہ بنت عبدالملک بیان کرتی ہیں کہ آپ نے امر خلافت سنبھالنے کے بعد کبھی غسلِ جنابت نہ کیا تھا سوائے تین مرتبہ کے یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے، اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ، ’’یہاں تک کہ وفات پاگئے۔[7] البتہ اتنی بات ضرورہے کہ اگر یہ روایت صحیح ہے تو یقینا یہ بات آپ کی سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شدید محبت کے خلاف ہے او ر آپ سے یہ بات بے حد مستبعد(دور) ہے کہ آپ سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ترک کردیں ۔ اور اپنی بیویوں کے حقوق مارکر ان پر ظلم کریں کیونکہ بیویوں کے پاس جانے کو ترک کر نا اور ان سے لطف ا ندوز ہونے کو خود پر حرام کرلینے کا اس اسلامی زہد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جس کو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔ بے شک یہ مسلم سوسائٹی میں گھس آنے والی ایک خلافِ اسلام روش ہے جس پر بعض بدعتی اور
[1] الآثار الواردۃ عن عمربن عبدالعزیزفی العقیدۃ،: ۱/۱۴۶ [2] حلیۃ الاولیاء،: ۵/۲۵۷ [3] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص:۴۳ [4] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص: ۳۸ [5] الآثار الواردۃ من عمربن عبدالعزیزفی العقیدۃ:۱/ ۱۵۵۔ [6] الآثار الواردۃ:۱/۱۵۵ [7] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص: ۵۰۔