کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 114
پختہ ایمان رکھنا اور اللہ اور روز قیامت سے ڈرنا تھیں ۔[1] زہد اور دنیا سے بے رغبتی: سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے مطابق زندگی گزارتے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت پر چلتے ہوئے اور اس دنیاوی زندگی میں گہری نگاہ ڈالنے کے بعد اس بات کو خوب سمجھ لیا تھا کہ یہ دنیا آزمائش اور امتحان کی جگہ ہے اور آخرت کی کھیتی ہے۔ اسی لیے آپ نے خود کو دنیا کی زیب وزینت، رونق اور چمک دمک سے خود کو آزاد کرلیا اور ظاہر وباطن کے ساتھ رب کی فرمانبرداری اور طاعت و انقیاد کو اختیار کر لیا۔اور آپ ان حقائق تک پہنچ گئے جو آپ کے دل میں اوررگ رگ میں پیوست ہوگئے تھے۔ اور ان حقائق نے آپ کی دنیا سے زہد اختیار کرنے میں بے حد مدد کی۔ ان حقائق میں سے چند ایک کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے: الف: آپ کا اس بات پرکامل یقین تھا کہ ہم اس دنیا میں مسافر یا راہ گیرہیں جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’دنیا میں یوں رہوجیسے پردیسی یا راہ چلتا مسافر ہوتاہے۔‘‘[2] ب: اللہ رب العزت کے نزدیک اس دنیا کی کوئی قیمت اور وزن نہیں ۔ اگر اس دنیا میں کسی کی قیمت ہے تو وہ رب تعالیٰ کی طاعت کی ہے۔ چنانچہ حضرت رسالت مآب کاارشاد پاک ہے: ’’اگر یہ دنیا اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ اس دنیاسے کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتے۔[3] ج: اس دنیا کی عمر ختم ہونے والی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میں اور قیامت یوں بھیجے گئے ہیں ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا کر سمجھایا۔‘‘[4] د: آخرت باقی رہنے والی اور رہنے کاگھر ہے۔ غرض ان حقائق نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو زاہد دنیا بنادیا، جس کا سب سے پہلا اثریہ مرتب ہواکہ آپ نے حرام سے زہد اختیار کر لیا اور پھر مباح سے بھی بے رغبتی اختیار کر لی اور زہد کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ تم اپنے پاس موجود ہر زائد چیز سے زہد اختیار کرلو اور جو کچھ ہاتھ میں ہے اس سے غناء اختیار کرلو۔[5] سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا زہد کتاب وسنت کی تعلیمات پر مبنی تھا۔ اسی لیے آپ نے ہر اس بات کو ترک کر دیا جس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہ تھا۔ اور آپ اپنے پاس موجود دنیا کی کسی چیز سے بھی خوش نہ
[1] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر،ص: ۱۴۲ [2] جامع الترمذی،کتاب الزہد،رقم: ۲۳۳۳۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ [3] جامع الترمذی،کتاب الزہد،رقم: ۲۳۲۰ [4] صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،رقم:۱۳۲۔۱۳۵ [5] النموذج الاداری المستخلص من ادراۃ عمر،ص: ۱۴۸