کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 112
آئیے ذیل میں سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی اہم صفات کا ایک اجمالی تعارف پڑھتے ہیں : خوفِ الٰہی کا عالم: بے شک سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سب سے امتیازی وصف، نمایاں خوبی اور ہرنیکی کا داعی ومحرک وہ آپ کا رب تعالیٰ اورآخرت پر پختہ ایمان، رب کا خوف اور جنت کا شوق تھا۔ یہی وہ قوی ایمان ہے جو آپ کے دورِ شباب کا امتیازی وصف بھی تھا۔ اور اس کے مظاہر آپ کی ذات میں اس وقت بھی نظر آتے تھے جب آپ خلافت وحکومت کی قوت کے ساتھ متصف بھی تھے۔ جو ایک انسان کو شیطانی تسویلات، قوی مادی انگیختوں اور نفس کے دھوکوں سے بچاتا ہے۔ اور آدمی کو نفس کے باریک محاسبہ پر تیار کرتا ہے۔ اور اسے حق کے رستے پرقائم رکھتا ہے۔[1]سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ جنت کے مشتاق تھے اسی لیے دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے تھے، کیونکہ آپ کا اس بات پر پختہ یقین تھا: {یَاقَوْمِ اِِنَّمَا ہٰذِہٖ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ وَاِِنَّ الْآخِرَۃَ ہِیَ دَارُ الْقَرَارِ} (الغافر: ۳۹) ’’بھائیو! یہ دنیا کی زندگی (چندروزہ) فائدہ اٹھانے کی چیز ہے اور جو آخرت ہے وہی ہمیشہ رہنے کا گھرہے۔‘‘ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنی فطرت سلیمہ اور عقیدہ صحیحہ کی بدولت اس بات کا ادراک حاصل کر لیا تھا کہ ایک مومن کو دنیا سے زیادہ اپنی آخرت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ چنانچہ آپ یزیدبن مہلب کو خط میں لکھتے ہیں : اگر مجھے بیویاں کرنے اور مال اکٹھا کرنے کا شوق ہوتا تو رب تعالیٰ نے جو مجھے عطا کیاہے میں اس میں سے یہ سب کچھ اور اتنا بنا لیتا کہ خلق خدا میں سے کوئی اس تک پہنچ نہ سکتا۔لیکن اللہ نے مجھے جس چیز میں مبتلا کیا ہے میں اس کے سخت حساب سے اورا س کے عظیم سوال سے ڈرتا ہوں مگریہ کہ اللہ ہی معاف کردے اور رحم کردے۔ [2] خوف الٰہی کی اس شدت کو بیان کرتے ہوئے آپ کی اہلیہ فاطمہ بنت عبدالملک کہتی ہے: اللہ کی قسم! آپ دوسروں سے زیادہ نمازی اور روزہ دار نہ تھے۔ہاں جتنا اللہ سے ڈرتے میں نے آپ کو دیکھا ہے اتنا کسی کوڈرتے نہیں دیکھا۔ آپ اپنے بستر پر لیٹے اللہ کا ذکر کررہے ہوتے تھے اور رب تعالیٰ کے خوف کی شدت سے کسی بے بس چڑیا کی طرح لرز اور کانپ رہے ہوتے تھے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ہم گھر والے یہ کہہ اٹھتے تھے کہ صبح تک لوگوں کے یہ خلیفہ (باقی) نہ رہیں گے (یہ مارے خوف کے اپنی جان ہی دے دیں گے)۔ [3]
[1] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر،ص: ۱۴۰ [2] تاریخ الطبری نقلاعن النموذج الاداری،ص: ۱۴۰ [3] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن عبد الحکم،ص: ۴۲