کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 109
آڑے آبھی کیسے سکتے ہیں ۔ [1] ایک اور موقع پر سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ عاملوں کو لکھتے ہیں کہ ’’پلوں اور رستوں کو راہ گیروں کے لیے کھول دو تاکہ وہ ان پر کسی قسم کی کمیشن یارشوت کے بغیر چلیں کیونکہ برے عاملین ہمیشہ حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔‘‘[2] اب ذرا سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور خلافت میں چیزوں کے نرخوں اور سرکاری نرخ بندی اورنرخ ناموں پر بھی گفتگو ہوجائے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ہمیں عبدالرحمن بن شوبان نے اپنے والد سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے پوچھاکہ: اے امیرا لمومنین ! کیا بات ہے کہ آپ کے دور میں چیزیں مہنگی ہیں جبکہ آپ سے پہلے خلفاء کے ادوار میں چیزیں سستی تھیں ؟ تو آپ نے جواب دیا:گزشتہ خلفاء نے اہل ذمہ پر ان کی ہمت سے زیادہ جزیہ مقرر کر رکھا تھا۔ جس پر وہ اپنے مال کو سستا بیچنے پر مجبور تھے۔ جبکہ میں لوگوں کو ان کی طاقت کے بقدر ہی مکلف بناتا ہوں ، اسی لیے لوگ اپنا مال جس بھائو پر چاہے بیچتے ہیں ۔‘‘ اس پر میں نے کہا کہ تو پھر آپ اشیاء کی نرخ بندی خود کیوں نہیں کردیتے؟آپ نے فرمایا: ’’اس کا اختیار ہمیں نہیں چیزوں کے نرخ اللہ کے سپرد ہیں ۔‘‘ [3] سیّدنا عمربن عبدالعزیز نے حرام چیزوں کی خرید وفروخت کو سختی کے ساتھ منع کیا۔ چنانچہ شراب جو ام الخبائث ہے، اس کے حرام اور ضرر رساں ہونے کی بنا پر مسلمانوں کے لیے اس کا لین دین قطعاً حرام ہے۔ یہی شراب خون ناحق کے ارتکاب تک لے جاتی ہے اور آدمی کوحرام کھانے پر آمادہ کرتی ہے۔[4] اگر ہمارے حکم پہنچنے کے بعد بھی کوئی شراب پیتا پکڑا گیا تو ہم اس کے جان ومال میں ایسی سزا دیں گے جو دوسروں کے لیے بھی عبرت کا باعث بنے گی۔[5] غرض سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ردِّ مظالم اور حریتِ کسب وتجارت کی سیاست نے لوگوں کے لیے کام اور ترقی کے وسیع مواقع پیدا کیے۔ آپ کی سیاست نے اقتصادی حریت اور ترقی کی راہ کی ہر رکاوٹ کو دور کیا۔ جس سے تجارت کو فروغ ملا اور تجارت کے فروغ نے پیداواری وسائل میں بے پناہ اضافہ کیا جس کا مآل زکوۃ کی کثرت کی صور ت میں نکلا اور زکوۃ کی کثرت نے تنگدستوں کے معیار زندگی کو بھی بلند کیا۔ اب ان کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہوا جس سے ایک طرف مال کی کھپت میں اضافہ ہو اتو دوسری طرف رسد کی
[1] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص: ۹۸ [2] الادارۃ الاسلامیۃ،ص: ۱۰۵از محمد کرد [3] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ لعمربن عبدالعزیز،ص: ۴۸ [4] السیاسۃ الاقتصادیۃ والمالیۃ لعمربن عبدالعزیز،ص: ۴۸ [5] سیرۃ عمر بن عبدالعزیز،ص: ۱۰۳ از ابن عبدالحکم