کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 108
آپ نے خلافت سنبھالتے ہی اپنی باندیوں کو اس بات کا اختیار دے دیا کہ چاہیں تو وہ آزاد ہیں اور چاہیں تو کسی حق کے بغیرخلیفہ کے ساتھ رہیں ۔ معلوم ہوا کہ خلافت سنبھالتے ہی آپ کو اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ آپ امور خلافت کو نبھانے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کی ادائیگی کا حق ادا نہیں کرسکتے اسی لیے آپ نے انہیں اختیار دے دیا کہ یا تو وہ بلامعاوضہ ٹھہری رہیں یا پھر آزادی اختیار کرلیں ۔جس سے ان میں سے ہر ایک کو پوری پوری شخصی آزادی حاصل ہوئی۔[1] چنانچہ ابن عبدالحکم روایت کرتا ہے کہ آپ نے اپنی باند یوں کو یہ کہہ کر اختیار دے دیا کہ میرے کندھوں پر اب وہ ذمہ داری آن پڑی ہے جس کے ہوتے ہوئے میں تمہاری خبر گیر ی کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا تم میں سے جو آزاد ہونا چاہے میں اسے آزاد کرتاہوں اورجو رہنا چاہتی ہے وہ مجھ سے کسی چیز کی توقع نہ رکھے۔ اس پر وہ آپ سے ناامید ہونے کی بناپر زور زور سے رونے لگیں ۔[2] د: کسب وتجارت کی آزادی: بروبحر میں رب کا فضل تلاش کرنے اور کسب وتجارت کرنے کی آزادی اقتصادی آزادی کا ایک جز ہے۔آپ نے اپنے عمال کو تاکید کے ساتھ لکھ بھیجا کہ وہ لوگوں کو اپنے اموال سے مستفید ہونے کا اور بروبحر میں تجارت کرنے کا برابری کی سطح پر بھر پور موقع دیں ۔ آپ نے لکھ بھیجا کہ رب کی نازل کردہ شریعت کی طاعت میں سے یہ بات ہے کہ سب انسانوں کو اسلام میں د اخل ہونے کی دعوت دی جائے۔ اور یہ کہ لوگ بروبحر میں سے جہاں سے بھی مال کما ناچاہیں انہیں اس کی آزادی ہو…انہیں کسی قیدوبند کا پابند نہ بنایا جائے۔[3] … اور یہ بھی لکھ بھیجا کہ ’’رہے سمندر تو یہ خشکی کے لیے رستے ہیں ۔‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اَللّٰہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ} (الجاثیۃ: ۱۳) ’’اللہ وہ ہے جس نے تمھاری خاطر سمندر کو مسخر کر دیا، تاکہ جہاز اس میں اس کے حکم سے چلیں اور تا کہ تم اس کا کچھ فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو ۔‘‘ جب یہ بات ہے تو پھر جو چاہے ان سمندروں اوردریائوں میں تجارت کرے۔ اس لیے میری رائے میں ہمیں کسی کو بحری تجارت سے نہیں روکنا چاہیے کیونکہ بحرو بر دونوں اللہ کے ہیں جن پر اس نے اپنے بندوں کو قابو دے دیا ہے تاکہ وہ ان میں سے اسکے فضل سے معاش کو تلاش کریں اور بھلاہم بندوں کے معاش کے
[1] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر،ص: ۳۱۰ [2] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص: ۱۲۱ [3] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص: ۹۴