کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 107
’’سن لو! خلافِ سنت میں کسی کی فرمانبرداری نہیں ، اور رب کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ، تم لوگ اس کو نافرمان کہتے ہو جو اپنے امام کے ظلم سے بھاگ جائے۔ سن لو! نافرمانی کیے جانے کا سب سے زیادہ مستحق ظالم امام ہے۔‘‘[1]
سیاسی آزادی کی فضا قائم کرنے کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ آپ نے خلافت سنبھالنے کے فوراً بعد ہی خلافت سے دست بردار ہونے کا اعلان کر دیا اور لوگوں سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ اپنا خلیفہ خود چن لیں ، یہ سیاسی آزادی دو مقامات پر کھل کر سامنے آتی ہے۔
۱۔ اہلِ حل وعقد اور مسلمانوں کی بیعت ورضا کے ذریعے عوام کا حاکم کے اختیارات میں شریک ہونا۔
۲۔ عوام کا اسلام کے معیارات کے مطابق حکام اور عمال کو صحیح رائے دینا، انہیں نصیحت کرنا اور ان کے افعال کو جانچنا اورپر کھنا۔[2]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز نے ان دونوں سیاستوں کو اپنایا چنانچہ لوگوں میں پہلا خطبہ دینے سے پہلے ہی انہیں مرضی سے خلیفہ بنانے کا اختیار دے دیا۔[3] جس کا تفصیلی بیان آگے آجائے گا۔ ان شا ء اللہ
ج: شخضی آزادی:
آپ نے امت مسلمہ کے افراد کی شخصی آزادی کو بھی یقینی بنایا۔ چنانچہ آپ کو اس بات کا علم ہوا کہ بعض قوموں پر ہجرت کرنے کی اور آزادی کے ساتھ آنے جانے کی پابندی ہے تو آپ نے فوراً ان پابندیوں کو ختم کروا دیا۔ اورعام اجازت دے دی کہ جو چاہے ہجرت کرسکتا ہے۔ چنانچہ نے فرمایا: ہم اس اعرابی شخص کے لیے ہجرت کا دروازہ کھولتے ہیں جو اپنے جانور بیچ کر اپنے دار سے دارالہجرت منتقل ہونا چاہے یا ہمارے دشمنوں کے ساتھ قتال کے لیے روانہ ہونا چاہے۔ پس جو ایسا کرے گا اس کو مال غنیمت میں سے وہی حصہ ملے گا جو مہاجرین کوملا کرتا ہے۔[4]
اسی طرح آپ نے اپنے عاملوں کو لکھ بھیجا کہ ’’وہ مسلمانوں پر ہجرت کے دروازے کھول دیں ۔‘‘[5]
جب آپ کا ہجرت اور نقل مکانی کے بارے میں یہ موقف تھا تو لازماً ان امور میں آپ انسانی آزادی کے کہیں بڑھ کر حریص ہوں گے جن کی رعایت کرنے والے اور ان کا اہتمام کرنے والے لوگ کم ہوتے ہیں ۔ اور وہ امر ہے کسی شخص کا امورِ سلطنت کامالک بن جانے کے بعد اپنی باندیوں کے ساتھ سلوک۔ چنانچہ
[1] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن الجوزی،ص: ۲۴۰
[2] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر،ص:۳۱۲۔
[3] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃِ عمر، ص: ۲۱۲۔
[4] سیرۃ عمربن عبدالعزیزلابن عبدالحکم،ص: ۷۹
[5] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن عبدالحکم،ص:۷۸