کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 106
عامۃ الناس کی آزادیوں کی کفالت و حفاظت بھی کی اور خلافت کو اس کاضامن بھی بنایا، البتہ یہ ضروری تھا کہ وہ جملہ آزادیاں دائرئہ شریعت میں رہ کر ہوں اور حدود شرعیہ کے متصادم ومعارض بھی نہ ہوں ۔ چنانچہ آپ نے جملہ انسانی آزادیوں کی حفاظت کی۔ اور ان آزادیوں کو بھی بر قرار رکھا جو تعلیماتِ اسلامیہ کے ہم آہنگ اور موافق ومطابق تھیں ۔ البتہ جو آزادیاں تعلیمات اسلامیہ کے مخالف تھیں ان کو آپ دائرہ اسلام میں لے آئے۔ ذیل میں اس کی قدرے تفصیلات ملا حظہ ہوں ۔ الف: فکری واعتقادی آزادی: آپ نے معاشرے میں اعتقادی آزادی کی بنیاد رکھی۔ یہود ونصاریٰ کے ساتھ آپ کی سیاست یہ تھی کہ آپ نے ان کے ساتھ کیے عہد پورے کیے، ان میں عدل قائم کیا، ان پر سے مظالم کو ختم کیا، اور رب تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرتے ہوئے ان پر سے ہر قسم کی اعتقادی تنگی کو ختم کردیا۔ چنانچہ ارشادی باری تعالی ہے: {لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ } (البقرۃ: ۲۵۶) ’’دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے۔‘‘ آپ نے ملوک ہند اور دین سے خارج قبائل کے ساتھ دعوتی اسلوب اپنایا جس کی تفصیل آگے آ جائے گی۔ آپ نے اسلام میں داخل ہو نے پر کسی یہودی یا نصرانی کو مجبور نہ کیا۔ جبکہ رائے اور تعبیر کے اعتبار سے آپ نے وسیع پیمانے پر رعایا کو فکری آزادی دی تاکہ آپ نظام مملکت کو بھی چلاسکیں اور عمال ورعایا کی قیادت بھی سنبھال سکیں ۔ چنانچہ آپ نے ہر مظلوم کو اس بات کی کھلی آزادی دی کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان سنا سکے۔ آپ نے لوگوں کو اپنی من چاہی بات کہنے کی بھی آزادی دی۔ قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کی تعبیر ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں : ’’آج ہر وہ آدمی بول رہا ہے جس کی منہ میں کبھی زبان بھی نہ تھی۔[1] البتہ یہ ضروری تھا کہ اس کی بات خلاف شریعت نہ ہو۔ ب: سیاسی آزادی: اسلام نے ہر انسان کو سیاسی آزادی دے رکھی ہے، وہ یہ کہ رب کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں چاہے وہ والی، حاکم امیر اور خود خلیفہ ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ آپ نے ہر شخص کو یہ آزادی دینے کا اعلان کیا آپ نے خلافت سنبھالتے ہی اس بات کا اعلان کر دیا کہ ہر شخص کو امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی آزادی ہے۔ اوریہ کہ ان پر ہو نے والے ظلم کا ازالہ ہر شخص کرسکتا ہے۔ اور ظلم کے خلاف ہر شخص آواز اٹھا سکتا ہے۔ اور یہ کہ ظلم پر سکوت اختیار کرنے کو اسلام پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ آپ نے ایک دن لوگوں میں خطبہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا:
[1] الطبقات لابن سعد: ۵/۳۴۴