کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 105
کوئی معنی نہیں ۔[1]
ایک دفعہ مدینہ میں ایک آدمی نے آپ کو گالی دی تو آپ نے اس کے لیے وہی حکم دیا جیساایک آدمی کے لیے جس کو کوئی دوسرا گالی دے، ہوتا ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ مدینہ میں ایک آدمی کے خلاف ایک فیصلہ کیا گیا۔ والی مدینہ ابو بکر بن حزم نماز پڑھ رہے تھے۔ اس نے اپنے خلاف فیصلہ سنائے جانے پر تلوار سونت لی اور سب کی نماز توڑ دی۔ ابوبکر نے یہ قصہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو لکھ بھیجا۔ آپ نے اس کے خلاف سزا کا پروانہ ایک قاصد کے ہاتھ روانہ کیا۔ جب سزا سنائی گئی تو اس آدمی نے آپ کو آپ کے فیصلے کو اور فیصلہ لانے والے قاصد کو سب کوگالیاں دیں ۔ ابو بکر نے غصہ میں آکر اسے قتل کرنا چاہا۔ پھر رک گیا اوراس بارے میں آپ سے استفسار کیاکہ جو شخص یوں بے جا آپ کو گالیاں دے اس کی گردن نہ اڑادی جائے۔آپ نے جواب میں لکھا : اگر ایسا کرتے تو اس کی جان کے بدلے میں میں تمہیں قتل کردیتا۔
سن لوکہ کسی کو گالی دینے کی بنا پر کسی کو قتل نہیں کیا جاسکتا سوائے اس شخص کے جوحضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر زبانِ سب وشتم دراز کرے۔ لہٰذا جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے ، تو مسلمانوں کو اس کے شر سے بچانے کے لیے اسے قید میں ڈال دو۔اور ہرماہ کے آغاز میں اسے توبہ کی طرف بلائو پس اگر وہ توبہ کرے تو اسے آزاد کر دو۔[2]
آپ محض خود ہی مساوات کے اصول پر کار بند نہ رہتے تھے بلکہ اپنے عمال کو بھی مساوات کی دعوت دیتے تھے۔چنانچہ آپ نے والی مدینہ کو لکھا کہ ’’لوگوں میں نکلو، ان میں نشست وبرخاست میں مساوات کو قائم کرو، کسی کو تمہار نظروں میں دوسرے پر ترجیح حاصل نہ ہو اوریہ جملہ کبھی نہ بولنا کہ فلاں امیر المومنین کے اہلِ بیت میں سے ہے کیونکہ آج میرے نزدیک سب برابر ہیں ۔ بلکہ آج میں امیر المومنین کے اہلِ بیت کو اس بات کے زیادہ لائق سمجھتا ہوں کہ جوان سے جھگڑے، اس کے بالمقابل ان کو سزادی جائے۔[3]
یہ چند بکھرے واقعات سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی مساوات کی سیاست پرخوب روشنی ڈالتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ آپ نے اپنی خلافت کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی تھی ان میں سے ایک اہم اصول ’’مساوات‘‘ بھی تھا۔[4]
خلافت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ میں آزادیاں :
آپ کا دور خلافت جن اساسی بنیادوں پر قائم تھا ان میں سے ایک ’’آزادی‘‘ بھی تھا۔ چنانچہ آپ نے
[1] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر،ص: ۲۹۹۔
[2] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لابن عبدالحکم،ص: ۱۴۲۔
[3] الطبقات لابن سعد: ۵/۳۴۳۔
[4] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمر،ص: ۳۰۱۔