کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 104
درمیان بھی برابری کی اوران دونوں طبقوں کے درمیان قائم کی گئی نفرت کی دیوارکوگرایا چنانچہ فرمایا: ’’آج اہل جزیہ میں سے جو یہودی یا نصرانی بھی اسلام قبول کرکے دار الاسلام چلا آتا ہے اور دارالحرب کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کے حقوق وواجبات بھی وہی ہیں جو د وسرے مسلمانوں کے ہیں اور مسلمانوں کے ذمہ ہے کہ وہ ان کی ہمددری کریں اور انہیں اپنی سوسائٹی میں شامل کریں ۔[1] ابن سعد کی روایت میں ہے کہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز نے تنخواہوں ، لباس، معاش اور امداد وانعام میں عرب اور موالی میں مساوات کو قائم کیا۔ ہاں البتہ غلام آزاد کرنے والے کا وظیفہ پچیس ہزار دینار مقرر کیا۔[2] اسی طرح آپ نے عدالتی معاملات اور احکام شرعیہ کی تنفیذ میں بھی مساوات کو قائم کیا حتی کہ ایک دفعہ خود بھی ایک عدالتی معاملہ میں عام آدمی کی طرح عدالت میں پیش ہوئے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مصری نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ کہا’ ’اے امیر المومنین! (آپ کے والد) عبدالعزیز نے میری زمین ظلماً لے لی تھی۔ آپ نے پوچھا اے اللہ کے بندے! تیری زمین کہاں ہے؟ بولا: حلوان میں ۔ آپ نے کہا بندۂ خدا! حلوان کے شرکاء کو بھی اس زمین کے بارے میں بتلادو اور ہمارے تمہارے درمیان یہ حاکم فیصلہ کرے گا۔‘‘ آپ حاکم کے پاس گئے تو اس نے فیصلہ آپ کے خلاف کر دیا۔آپ نے کہا: ہم نے اس زمین پر خرچ بھی کیا ہے۔ حاکم بولا: اس کے بدلے میں تم اس کی پیداوار کھاتے رہے ہو۔ جو تمہارے خرچ کے برابر ہے۔ اس پر آپ نے کہا : اگر تم نے اس کے علاوہ کوئی فیصلہ دیا ہوتا تو میں تمہیں دوبارہ کبھی والی نہ بناتا اورزمین اس مصری کو واپس کر دینے کا حکم دیا۔ [3] اسی مساوات کا تقاضاتھا کہ آپ نے عامتہ المسلمین کو منع کیا کہ وہ اپنے مخصوص القاب یا دعائیہ صیغے نہ بنائیں ۔ چنانچہ آپ نے الجزیرہ کے امیر کو لکھ بھیجا کہ میں نے سنا ہے کہ بعض خوشامد پر ست قصہ گو قسم کے لوگوں نے امراء کو سلام کرنے اور دعا بھیجنے کے لیے ایسے ایسے الفاظ ایجاد کر لیے ہیں جو حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر حملہ کرنے کے مترادف ہیں ۔ اس لیے میرا خط پہنچے پران خوشامد پرست قصہ گولوگوں کو حکم دے دینا کہ وہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر صلاۃ بھیجا کریں ۔ اور مسلمانوں کو عام سلام اور دعا دیا کریں ۔[4] آپ نے رعایا میں اس حد تک مساوات کو قائم کیا کہ کسی کو خاص کلمات کے ساتھ دعا دینے تک سے منع فرما دیا کیونکہ دعا کا ہر ایک محتاج ہوتاہے اور سب کی دعا اللہ ہی قبول کرتاہے اس لیے کسی کی ترجیح یاتخصیص کا
[1] سیرۃ عمر بن عبدالعزیزلابن عبدالحکم،ص:۷۹ [2] الطبقات لابن سعد : ۵/۳۷۵ [3] عمربن عبدالعزیز وسیاستہ فی رد المظالم‘ص: ۲۹۸ [4] سیرۃ عمربن عبدالعزیز،ص: ۲۷۳لا بن الجوزی