کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 103
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اسلام کے اس بنیادی اصول کو اپنی خلافت کی اساس ٹھہرایا۔ جس کا اشارہ ہمیں اس قسم سے ملتا ہے جوآپ نے اٹھائی تھی کہ ’’اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے اور اپنے رشتہ داروں اور لوگوں کے درمیان معیار زندگی میں برابری قائم کروں ۔‘‘[1] اللہ کی قسم، اللہ کی قسم! اس بات سے میری کوئی دوسری مراد نہیں ۔ اگرایسی بات ہوتی تو اس کو بہت بہتر طریقہ سے بیان کر سکتا تھا اور میں اس کے اسباب سے بھی واقف ہوں ۔[2] آپ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: تم میں سے جو بھی اپنی حاجت لے کر میرے پاس آتا ہے تو میں یہ تمنا کرتاہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے اس کی حاجت پوری کروں ،[3] اسی طرح آپ نے حقوق وواجبات کی بابت زندگی کے سب شعبوں میں سب لوگوں میں مساوات کو قائم کیا۔ چنانچہ آپ نے وظائف وولایت میں سب کو مساوی حقوق دیے۔ اور کسی کو بغیر حق کے کچھ نہ دیا، چاہے وہ جوبھی تھا۔ چنانچہ آپ نے بنوامیہ کے اشراف وامراء اور عوام ورعایا کو ایک ترازو میں تولا آپ نے ان کے خصوصی وظائف اور مراعات کو ختم کردیا اور جب انہوں نے اس بابت بات کی تو آپ نے انہیں یہ کہا: ’’میرے مال میں تمہیں پورا اختیار ہے لیکن بیت المال میں تمہارا حق اتنا ہی ہے جنتا ایک عام آدمی کا ہے چاہے وہ برک الغماد [4] کے آخری کنارے میں رہتا ہے۔‘‘ آپ کی مالی سیاست مساوات کی بنیاد پر قائم تھی۔ بیت المال سب کا تھا اور اس میں سے ہر ایک کو دوسرے کی مدد کے بغیر اپنا حق لینے کا پورا اختیار تھا۔ اور بیت المال کسی خاص جماعت کی ذاتی جاگیر نہ تھا۔ آپ لوگوں میں مساوات قائم کرنا چاہتے تھے اس کااندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب آپ نے دیکھا کہ بنی امیہ کے امراء نے بے پناہ جاگیروں کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے اور ان میں اپنی چرا گاہیں قائم کرلی ہیں اور اب وہ کسی دوسرے کو اس سے مستفید نہیں ہونے دیتے تو آپ نے اعلان کر دیا کہ یہ چرا گاہیں سب مسلمانوں کے لیے مباح ہیں حتی کہ خلیفہ کا حق بھی ان میں ایک عام آدمی کی طرح ہے ان پررب تعالیٰ نے بارش برسائی ہے اس لیے ان پر سب مسلمانوں کا حق برابر ہے۔[5] اسی طرح آپ نے مسلمانوں کے اور دوسری ملتوں یہود ونصاریٰ سے اسلام قبول کر نے والوں کے
[1] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمربن عبدالعزیز،ص: ۲۹۷ [2] سیرۃ عمربن عبدالعزیز،ص: ۱۱۲ از ابن عبدالحکم [3] تاریخ الطبری نقلا عن النموذج الاداری من ادارۃ عمر،ص: ۲۹۷ [4] برک الغماد: ایک قول یہ ہے کہ یہ مکہ کی ایک بستی کا نام ہے۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ یمن کے علاقے حجر کے آخر میں موجود ایک بستی کا نام ہے۔ [5] سیرۃ عمربن عبدالعزیز لا بن عبدالحکم،ص: ۸۱۔