کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 102
جانوروں کو آنکڑے دار کوڑے مارنے اور بھاری لگامیں ڈالنے کی ممانعت: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کردی۔ اور شدت کے ساتھ اس بات سے روکا کہ کسی جانور پر ظلم کیا جائے یا اسے عذاب دیا جائے۔ ابو یوسف رحمہ اللہ کہتے ہیں : ہمیں عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ ’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس بات سے منع فرمایا کے ڈاکیا اپنے کوڑے میں لوہے کے کانٹے لگائے تاکہ اس سے جانوروں کو تیز دوڑانے کے لیے چوکا مارا جائے اور ان کو بھاری نکیل ڈالنے سے بھی منع کیا۔[1] چھ سو (۶۰۰)رطل سے زیادہ وزن لادنے کی ممانعت: جب آپ کو اس بات کی خبر پہنچی کہ بعض لوگ جانوروں پران کی ہمت سے زیادہ بوجھ لادتے ہیں جیساکہ مصر کے لوگوں کا وطیرہ تھا توآپ نے والئی مصر کو لکھ بھیجا کہ چھ سورطل سے زیادہ جانوروں پر بوجھ نہ لادا جائے۔ آپ نے والی مصر سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ یہ حکم لوگوں تک پہنچائے اور اس کی عملی تنفیذ کو ممکن بنائے۔[2] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور خلافت میں عدل اور اس کی اقدار کے یہ چند آثار ہیں جو ہم نے قارئین کرام کے سامنے پیش کیے ہیں وگرنہ آپ کا دور خلافت عدل سے ہی تعبیر تھا۔ اور آپ کا بنیادی ہدف ہی ایک ایسے معاشرے کا قیام تھا جس پر عدل کی اقدار کا راج ہو اور وہاں ظلم کو سرچھپانے کی کہیں جگہ نہ ملے۔ چنانچہ آپ نے ہر ممکن سطح پر ظلم کا مقابلہ کیا۔ مساوات: ارشاد باری تعالیٰ ہے: {ٰٓیاََیُّہَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ} (الحجرات: ۱۳) ’’اے لوگو! بے شک ہم نے تمھیں ایک نر اور ایک مادہ سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : لوگو! خبردار ! تمہارا پروردگار ایک ہے تمہارا باپ ایک ہے خبردار ! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر اور نہ کسی سرخ کو کسی کالے پراور نہ کسی کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت حاصل ہے مگر تقوی کے بل پر۔[3]
[1] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱۲/۳۳۲ وملامح الا نقلاب الاسلامی،ص: ۷۱۔ [2] فقہ عمربن عبدالعزیز: ۲/۵۷۵از محمد شقیر [3] النموذج الاداری المستخلص من ادارۃ عمربن عبدالعزیز،ص: ۲۹۷