کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 101
نے کسی مسلم یا ذمی یا معاہد پر جو ظلم ڈھایا ہو اسکا ازالہ کرو اور اگر وہ مظلوم مرگئے ہوں تو ان کا حق ان کے ورثاء تک پہنچائو۔[1] یہ بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ آپ کو اقامتِ حق وعدل میں بے پناہ مسائل، مشکلات مصائب، دشواریوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ آپ کو حق کے اجراء، عدل کی اشاعت اور ظلم کے دفع کے لیے بعض لوگوں کو رام کرنے کے لیے ان پر بہت سارا مال بھی خرچ کرناپڑا۔ چنانچہ ایک دن آپ کا فرزند عبدالملک آکر آپ کو کہنے لگا، اباجان!آپ کو عدل کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے؟ اللہ کی قسم! راہ حق میں مجھے اس بات کا ذرا اندیشہ نہیں کہ مجھے اورآپ کو زندہ ہانڈیوں میں ا بال دیا جائے۔ ؟ آپ نے فرمایا بیٹے ! میں لوگوں کو ایک سخت بات کا عادی بنارہا ہوں ۔ میں عدل کو قائم کرنا چاہتا ہوں اور دنیا کی طمع ختم کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ دنیا سے متنفرہوں اور عدل سے سکون پائیں ۔[2] چنانچہ آپ نے ان لوگوں کے لیے انعامات مقرر کیے جو خیر پر رہنمائی کریں ، یا کسی خطا پر متنبہ کریں یا کسی ایسے ظلم کا پتا دیں جہاں مظلوم اپنی بے بسی کی وجہ سے فریاد کرنے اور انصاف کادروازہ کھٹکھٹانے سے عاجز ہو۔ آپ نے ایک خط لکھا اور حکم دیا کہ یہ خط موسم حج میں آنے والے ہر حاجی کو اور حج کی ہر مجلس ومحفل میں سنایا جائے۔ وہ خط یہ تھا ’’امابعد! جو بھی ہمارے پاس کسی مظلوم کے چھینے حق کی خبر لائے گا یا کسی ایسے امر دین کی خبر دے گا جس میں خاص وعام کی اصلاح ہوتو ہم اسے اس بات کی نوعیت کے اعتبار سے اور اس کی مسافت کی دوری اور مشقت کے اعتبار سے دوسے تین سو دینار تک کا انعام دیں گے۔ اور اللہ اس شخص پر رحم کرے جو سفر کی دقتوں کو خاطر میں نہ لائے کہ شاید ا س کی بات سے اللہ حق کو زندہ کرے یا کسی باطل کو مٹائے یا اس کے ورے کسی خیر کا دروازہ کھولے۔[3] آپ نے عدل کی حلاوت چکھی، رحم دلی کی لذت اٹھائی اور لوگوں کو عدل ورحم کی ٹھنڈی چھائوں میں جگہ دی۔ آپ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم! میں چاہتا کہ اگر اللہ مجھے صرف ایک دن کی زندگی کی مہلت دے تو میں اس میں بھی عدل قائم کروں ۔[4] اگرچہ آپ نے عدل کے ثمرات دیکھ لیے، لوگوں نے عدل کے ثمرات سے فائدہ اٹھایا لیکن آپ کی طبیعت کے جوش کو کسی درجہ قرار نہ آتا تھا آپ عدل کے رستے میں مزید آگے بڑھنا چاہتے تھے اس کی وضاحت آپ کا یہ قول خود کرتا ہے کہ ’’اگر میں پچاس سال تک بھی تمہارا خلیفہ رہوں تو بھی عدل کرنے کا حق ادا نہ کر سکوں ۔ [5] آپ کے عدل وانصاف کے فیض سے جانور بھی محروم نہ رہے، اس کی چند جھلکیاں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں :
[1] الطبقات لابن سعد: ۵/۳۴۲۔۳۴۳ [2] عمر بن عبدالعزیز،ص: ۲۲۶ از عبد الستار شیخ [3] عمربن عبدالعزیز،ص: ۲۲۷ از عبدالستار شیخ [4] تہذیب الاسماء واللغات: ۲/۲۳ [5] تاریخ ابن عساکر،ص: ۲۲۷ نقلا عن عمربن عبدالعزیز لعبد الستار