کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 100
ظلم سے وصولِ مال کے طریقہ کا خاتمہ اور زکوٰۃ کی وصولی کا اجراء:
جہاں آپ نے بیت المال سے اس مال کو بے دخل کیا جو لوگوں سے ظلماً وصول کیا گیا تھا، وہیں آپ نے لوگوں سے زکوٰۃ وصول کر نے کے نظام کو بھی مستحکم کیا۔ چنانچہ آپ بیت المال میں پڑے مال سے ایک سال کی زکوٰۃ لے کر اسے اس کے مالک تک پہنچا دیتے۔[1] مالک بن انس رضی اللہ عنہ ایوب سختیانی سے نقل کرتے کہیں کہ: آپ نے بیت المال میں پڑے مظلوموں کے اموال واپس کیے اور ساتھ ہی اس بات کا بھی حکم دیا کہ جو مال سالوں سے ان کے مالکوں کے پاس نہیں رہا اس کی زکوٰۃ وصول کی جائے۔ پھر آپ نے ایک اور خط لکھا کہ میں نے مال ضمار[2] میں غور کیا ہے میرے نزدیک ا سکی صرف ایک سال کی زکوۃ لی جائے۔[3]
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں ایک والی نے ابو عائشہ نامی ایک غلام سے بیس ہزار کی رقم لے کر بیت المال میں داخل کردی۔
جب سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ بنے تو ابو عائشہ کے بیٹے نے آکر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی فریاد کی۔ چنانچہ آپ نے نے میمون کو حکم لکھ بھیجا کہ ان کا مال ان کو دے دو اور اس میں سے ایک سال کی زکوۃ وصول کر لو۔ اگر یہ مالِ ضمار کے حکم میں نہ ہوتا تومیں اس کے پچھلے سب سالوں کی زکوٰۃ وصول کرتا۔[4]
یہ تھا آپ کا عدل وانصاف کہ آپ اپنے والیوں کو اس بات کی تعلیم دیتے تھے کہ زندگی کا ہرشعبہ عدل کے ساتھ ہی سدھرے گا۔ چنانچہ جب آپ کے ایک والی نے خط لکھ بھیجا کہ: امابعد ! ہمارا شہر کافی ٹوٹ پھوٹ گیا ہے اگر اجازت ہو تو کچھ رقم عنایت ہوتاکہ اس کی اصلاح و ترمیم کر لی جائے۔‘‘ آپ نے اسے یہ جواب لکھ بھیجا کہ تمہارا خط پہنچا اورمیں خوب سمجھا بھی، تم نے ذکر کیا کہ شہر کی حالت خستہ ہے اور اسے اصلاح ومرمت کی ضرورت ہے، تو غور سے سنو! میرا خط پڑھ کر شہر کو عدل کے ساتھ مستحکم کرنا اور اس کے رستوں کوظلم سے پاک صاف کر لینا کہ یہی شہر کی درستی، اصلاح اور مرمت ہے… والسلام[5]
ایک عامل کو آپ نے یہ خط لکھ بھیجا کہ اگر تم سے ہو سکے کہ جتنا تم سے پہلے کے والیوں نے ظلم وجور اور ستم کیشی کا بازار گرم کر رکھا تھا اسی کے بقدر تم عدل وانصاف اوراصلاح واحسان کو قائم کرو، تو ایسا ضرور کرو۔ ولاحول والا قوۃ الاباللہ۔[6]
آپ نے ابوبکر بن حزم کو خط لکھا: سرکاری رجسٹروں کی خوب چھان پھٹک کرو اور مجھ سے پہلے والیوں
[1] فقہ عمر بن عبدالعزیز: ۲/ ۵۶۶ از محمد شقیر
[2] مال ضمار: یہ اس گم شدہ مال کو کہتے ہیں جس کے واپس ملنے کی امید ختم ہوگئی ہو۔
[3] الطبقات الکبری لابن سعد: ۵/۳۴۲
[4] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳/۲۰۲
[5] تاریخ الخلفاء للسیوطی، ص: ۲۳
[6] الطبقات لابن سعد:۵/۳۸۳۔۳۸۴