کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 518
بیمار تھا اور بے ہوشی کی حالت میں تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور اس کا پانی مجھ پر انڈیل دیا جس سے مجھے ہوش آ گیا۔[1] ب: عثمان بن عبداللہ بن وہب کہتے ہیں: میرے اہل خانہ نے پانی کا ایک برتن دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال تھے، جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا اسے اور کوئی تکلیف ہو جاتی تو وہ ان کے پاس کوئی برتن بھیجتا۔[2] اس کی تشریح میں ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو کوئی تکلیف ہوتی تو وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس کوئی برتن بھیجتا اور وہ اس برتن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ بال ڈبو کر اسے واپس کر دیتیں۔ وہ اس پانی کو پی لیتا اور صحت یاب ہو جاتا۔[3] ج: اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہ کے بارے میں فرمایا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اس وقت یہ جبہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا، پھر جب عائشہ رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں تو میں نے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب تن فرمایا کرتے تھے اور ہم اس سے شفا حاصل کرنے کے لیے اسے مریضوں کے لیے دھوتے ہیں۔[4] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک کے مسئلہ پر نیک لوگوں کے آثار سے تبرک کو متفرع کیا گیا ہے، عروہ بن مسعود ثقفی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں قریش مکہ کو بتایا تھا کہ و اللہ! میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے رفقاء اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کرتے ہیں۔ و اللہ! وہ تھوکتے بھی تھے تو وہ کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا تھا اور وہ اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا۔ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ اس پانی کے لیے لوگ لڑ پڑیں گے۔[5]اس حدیث کی تعلیق میں شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس جیسی اور بھی کئی احادیث ہیں۔ مزید فرماتے ہیں: اس قسم کا تبرک اس آدمی کے حق میں مشروع ہے جس کی ولایت اور اتباع سنت ثابت ہو۔ مگر اس جگہ ایک مشکل پیش آتی ہے اور وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس قسم کی کوئی چیز مروی نہیں ہے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل کسی کو نہیں چھوڑا تھا۔ صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے مگر انہوں نے اس قسم کا کبھی کوئی کام نہ کیا اور نہ ہی عمر و عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سے ایسی کوئی بات ثابت ہے۔ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن سے افضل امت میں کوئی ایک شخص بھی نہیں ہے ان سے بھی کسی ایک صحابیہ کے بارے میں صحیح سند کے ساتھ یہ ثابت نہیں ہے کہ اس نے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے آثار وغیرہ سے تبرک حاصل کیا ہو، یہ سب لوگ اقوال و افعال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع تک محدود رہے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس قسم کی چیزوں کے ترک پر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجماع ہے۔[6]
[1] فتح الباری شرح صحیح بخاری: ۱/۳۶۰. [2] ایضا: ۱۰/۳۶۴. [3] ایضا: ۱۰/۳۶۵. [4] شرح نووی: ۱۴/۴۳. [5] زاد المعاد: ۳/۲۹۰۔ السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الاصلیۃ، ص: ۴۸۸. [6] غزوہ الحدیبیۃ، حکمی، ص: ۳۰۵.