کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 514
و تجلدی للشامتین اریہم
انی لریب الدہر لا اتضعضع
و اذا المنیۃ انشبت اظفارہا
الفیت کل تمیمۃ لا تنفع
’’اور خوشیاں منانے والوں کو مضبوطی دکھانا اس لیے تھا کہ میں انہیں دکھا سکوں کہ میں گردش زمانہ کے سامنے عاجزی اختیار کرنے والا نہیں ہوں۔
اور جب موت اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے تو تُو دیکھے گا کہ اس وقت کوئی تعویذ فائدہ نہیں دیتا۔‘‘
بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کو کھجلی ہو گئی تھی، اور آپ نے اسی روز وفات پائی۔[1] جب آپ کی موت کا وقت قریب آیا تو فرمانے لگے: کاش میں ذی طویٰ میں قریش کا ایک عام آدمی ہوتا اور میں نے اس امارت و حکومت سے کچھ نہ لیا ہوتا۔[2] آپ نے مثال کے طور پر شاعر کا یہ شعر پڑھا:
ان تناقش یکن نقاشک یا رب
عذابا لاطوق لی بالعذاب
او تجاوز تجاوز العفو فاصفح
عن مسی ء ذنوبہ کالتراب
’’اے میرے رب! اگر تو کرید کرے گا تو تیری کرید میرے لیے عذاب بن جائے گی اور مجھ میں عذاب برداشت کرنے کی طاقت نہیں یا پھر تو عفو و کرم کے ساتھ درگزر فرما دے اور گناہ گار کو معاف فرما دے جس کے گناہ مٹی کی طرح ہیں۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ جب آپ کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ کے اہل خانہ آپ کو الٹنے پلٹنے لگے۔ اس پر آپ نے فرمایا: تم کس شیخ کے ساتھ ایسا کرتے ہو اگر اللہ اسے کل عذاب سے نجات دے دے۔[3] حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب آپ کا آخری وقت آیا تو لوگ آپ کے پاس آئے جنہیں دیکھ کر آپ رونے لگ گئے جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمانے لگے: میں موت کے ڈر سے نہیں روتا اور نہ ہی دنیا سے جانے اور سب کچھ یہاں چھوڑ جانے کی وجہ سے روتا ہوں، اصل بات یہ ہے کہ وہاں دو مٹھیاں ہیں، ان میں سے ایک جنت میں اور دوسری جہنم میں، میں نہیں جانتا کہ میں کون سی مٹھی میں ہوں گا۔[4]
مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر جب ہوش آیا تو اپنے اہل خانہ سے فرمانے
[1] البدایۃ و النہایۃ: ۱۱/۴۵۶.
[2] ایضا: ۱۱/۴۵۶.
[3] ایضا: ۱۱/۴۵۷.
[4] کتاب المحتضرین، ص: ۱۹۹۔ سکب العبرات: ۱/۱۹۰.