کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 513
فاضحی الذی قد کان مما یسرنی کحلم مضی فی المزمنات الغوابر فیا لیتنی لم اعن فی الملک ساعۃ و لم اُعنَ فی لذات عیش نواضر و کنت کذی طمرین عاش ببلغۃ من العیش حتی زار ضیق المقابر[1] ’’میری زندگی کی قسم! میں نے زمانے میں بہت کم زندگی پائی ہے اور دنیا قاطع تلواروں کے پڑنے سے میرے تابع ہو گئی ہے اور مجھے سرخ مال، حکومت اور دانائی عطا کی گئی ہے اور مجھے سب ظالم و جابر حکمرانوں نے سلام کیا ہے اور جس بات سے میں خوش ہوا کرتا تھا وہ گزرے ہوئے گزشتہ حلم کی طرح ہو گئی ہے۔ کاش میں بادشاہت سے ایک ساعت بھی سروکار نہ رکھتا اور نہ تروتازہ زندگی کی لذات میں وسعت اختیار کرتا۔ اب میری حالت دو چادروں والے شخص کی سی ہے جو صرف گزارے کی زندگی پر جیا ہو اور اب قبر کی تنگی سے دوچار ہو گیا ہو۔‘‘ معاویہ رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ ان کا آدھا مال بیت المال کو لوٹا دیا جائے گویا کہ انہوں نے اسے پاک کرنے کا اِرادہ کیا، اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال کو قسم دی تھی۔ مورخین بیان کرتے ہیں کہ آپ کو آخری عمر میں شدید سردی لگتی تھی، جب آپ لباس پہنتے یا کسی بھاری چیز سے اپنے آپ کو ڈھانپتے تو وہ آپ کو پریشان کرتی، اس پر انہوں نے اپنے لیے پرندوں کے پوٹوں سے کپڑا بنایا مگر بعد ازاں وہ بھی بوجھل ہو گیا تو فرمانے لگے: اے گھر تیرے لیے ہلاکت، میرا یہ حال اور میرا یہ انجام ہے، دنیا اور اس سے محبت کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہو۔[2] پھر جب ان کی حالت بگڑ گئی اور لوگ آپ کی موت کی باتیں کرنے لگے تو آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا: میری آنکھوں کو اثمد سرمے سے بھر دو، اور میرے سر میں تیل لگاؤ، انہوں نے ایسا ہی کیا اور آپ کے چہرے کو تیل سے چمکا دیا، پھر آپ کے لیے مجلس آراستہ کی گئی تو فرمایا: مجھے سہارا دو، پھر فرمایا: لوگوں کو اطلاع کرو وہ کھڑے ہو کر میرے لیے سلامتی کی دُعا کریں اور کسی شخص کو بھی روکا نہ جائے، ایک ایک آدمی آتا اور کھڑے کھڑے سلام کرتا تو وہ آپ کو سرمہ اور تیل لگائے دیکھتا اور پھر لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے کہتا: امیر المومنین تو صحت مند ہیں۔[3] پھر جب وہ لوگ ادھر سے چلے گئے[4] تو آپ نے ابو ذویب ہندی شاعر کا یہ شعر پڑھا:
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۱۱؍ ۴۵۵. [2] ایضًا: ۱۱/۴۵۵. [3] ایضا: ۱۱/۴۵۶. [4] ایضا: ۱۱/۴۵۶.