کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 511
ہوتے رہتے تھے، لہٰذا وہ اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہیں کہ جب شامی لشکر اپنی مہم سر کر لے تو اسے فوراً شام واپس بھجوا دیا جائے۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس وصیت میں ایک اہم بات ان کا وہ منصوبہ ہے جو انہوں نے آئندہ پیش آنے والے احداث و واقعات کا سامنا کرنے کے لیے تشکیل دیا اور جس کی تنفیذ یزید کے سپرد کی جب کہ وہ قریش کی ایک جماعت کو یزید کی بیعت پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے تھے، روایات بتاتی ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اس مقصد کے لیے خود مدینہ منورہ گئے اور یزید کے لیے بیعت کو ردّ کرنے والی اہم شخصیات سے الگ الگ ملاقاتیں کر کے ان سے یزید کے لیے بیعت کا وعدہ لینے کے لیے کوشش کی۔[2] مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے،[3] اس وصیت سے عیاں ہوتا ہے کہ حجاز اور خاص طور پر مدینہ منورہ میں بنو امیہ کی حکومت کی بہت زیادہ مخالفت پائی جاتی تھی اور اسی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے یزید کو اس کے ساتھ معاملہ کرتے وقت اس سے خبردار رہنے اور بوقت ضرورت بہت زیادہ محتاط رہنے کی وصیت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ جن لوگوں سے حقیقی خطرہ محسوس نہیں کرتے ان کے ساتھ نرمی اور ملائمت پر مبنی رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں، اس لیے کہ حکومت کو مستحکم رکھنے کے لیے حجاز کی بڑی اہمیت تھی۔[4]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ رائے بڑی صائب تھی کہ انہیں دین داری نے ہلاک کر ڈالا ہے، لہٰذا وہ یزید کے لیے خطرہ نہیں بن سکتے۔ جب ولید بن عتبہ نے انہیں بیعت یزید کے لیے طلب کیا تو انہوں نے فرمایا: جب لوگ بیعت کر لیں گے تو میں بھی کر لوں گا، چنانچہ انہوں نے انہیں عبادت میں مصروف ہونے اور حکومتی معاملات میں دلچسپی نہ لینے کی وجہ سے ان کے حال پر چھوڑ دیا۔[5] اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ اندازہ بھی درست ثابت ہوا کہ اہل عراق حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو خروج پر آمادہ کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو یزید اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما میں ٹکراؤ کا یقین تھا، اسی لیے تو انہوں نے یزید سے مطالبہ کیا کہ اگر اسے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر غلبہ حاصل ہو جائے تو وہ ان کے بارے میں درگزر سے کام لے۔ رہا وہ حقیقی خطرہ جو بہت زیادہ احتیاط اور سختی کا متقاضی ہو گا تو وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی طرف سے درپیش ہو گا جنہیں اموی حکومت کے زیادہ تر مخالفین کی بہت زیادہ حمایت حاصل ہو گی، نیز اس لیے بھی کہ وہ سیاست اور جنگ کے آدمی تھے۔ مختصراً یہ کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ وصیت مختلف امور سے نمٹنے کے لیے ان کی سیاسی بصیرت اور گہری فکر و نظر کی عکاسی کرتی ہے۔ ہمیں ان کی اس وصیت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسے احداث و واقعات کے بارے میں حزم و احتیاط پر مبنی معاملہ کرتے تھے جو شدت کے متقاضی ہوں۔ علاوہ ازیں کے لیے وہ اپنے طویل سیاسی تجربہ کو کام میں لایا کرتے، انہوں نے اپنی اس سیاسی روش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: جہاں میرا کوڑا میرے لیے کافی رہے میں وہاں تلوار کا استعمال نہیں کرتا اور جہاں میری زبان کافی رہے وہاں میں کوڑا بھی استعمال نہیں کرتا، اگر
[1] الوصیۃ السیاسیۃ فی العصر العباسی، ص: ۴۸.
[2] ایضا، ص: ۴۸.
[3] ایضا، ص: ۴۸.
[4] ایضا، ص: ۴۹.
[5] انساب الاشراف: ۴/۱۴.