کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 510
سیاسی اعتبار سے بھی اس کی اہمیت کی عکاسی ہوتی ہے، کیونکہ وہ چند ہی سال پہلے تک دولت اسلامیہ کا سیاسی مرکز ثقل (دار الخلافہ) تھا۔ جبکہ دینی اعتبار سے وہ ابھی تک مرکزیت کا حامل تھا اور یہ اس لیے کہ زیادہ تر اصحاب رسول رضی اللہ عنہم وہیں مقیم تھے اور اگر وہ اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کریں اور انہیں موقع میسر آئے تو وہ بنوامیہ کو حکومت تفویض کر سکتے ہیں گویا کہ وہ ابھی تک بھی بیعت کا حقیقی مرکز تھا۔[1] اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اموی حکومت کے معارضین کی متعدد شخصیات یہیں رہائش پذیر تھیں، جیسا کہ حسین بن علی، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم۔ جیسا کہ ہمیں اس وصیت کے آخر میں نظر آ رہا ہے، اس صوبہ کی اسی اہمیت کے پیش نظر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اہل حجاز کے دل جیتنے کے لیے مختلف وسائل سے کام لینے کی ترغیب دلائی جن میں کھلے دل سے ان پر مال خرچ کرنا بھی شامل ہے۔[2]
ب: عراق:… معاویہ رضی اللہ عنہ کی نظروں میں خصوصی اہمیت کا حامل دوسرا صوبہ عراق ہے۔ اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر وہ اپنے ولی عہد کو اہل عراق کے ساتھ خصوصی برتاؤ کرنے کی وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اہل عراق پر خصوصی نظر رکھنا اگر وہ تجھ سے ہر روز اپنے عامل کی معزولی کا مطالبہ کریں تو ایسا کر گزرنا، اس لیے کہ ایک عامل کو معزول کرنا میرے نزدیک اس بات سے بہتر ہے کہ ایک ہزار تلواریں تیرے خلاف سونت لی جائیں۔[3] یہ بات قابل ذکر ہے کہ اہل عراق کا اپنے ولاۃ سے شکایات کا سلسلہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت سے جاری تھا۔
ج: شام:… معاویہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک سیاسی اہمیت کا حامل تیسرا صوبہ شام تھا۔ اس کے بارے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی وصیت کا پس منظر یہ ہے کہ اہل شام نے انہیں ایوان اقتدار تک پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا اور وہ ہمیشہ ہی سے ان کی سیاست کے حمایتی رہے تھے، ان کے اسی کردار کی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ یزید کو انہیں خصوصی اہمیت دینے، ان پر اعتماد کرنے اور بڑی بڑی مشکلات کے وقت ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جس کے آخر میں اسے تلقین کی گئی ہے کہ اہل شام کی مدد سے دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد انہیں شام واپس بھجوا دینا اس لیے کہ اگر وہ دوسرے علاقوں میں مقیم ہو جائیں گے تو اپنے اخلاق و عادات کو ترک کر کے ان کے رویوں کو اپنا لیں گے۔[4] اس نص کا آخری فقرہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیاسی دُور اندیشی کی عکاسی کرتا ہے، اس میں وہ اپنے اس خوف کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر اہل شام دوسرے صوبوں کے لوگوں کے ساتھ اختلاط کریں گے تو اس سے ان کے اخلاق میں تبدیلی آ جائے گی۔[5] یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اموی حکومت کے مخالفین شامی لشکر پر اثر انداز ہو جائیں اور اس طرح اموی خلافت کے ہاتھ سے وہ پتا نکل جائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ استعمال کرتے اور اس کے فوائد سے بہرہ مند
[1] الوصیۃ السیاسیۃ فی العصر العباسی، ص: ۴۶.
[2] ایضًا.
[3] تاریخ طبری: ۶/۲۴۱.
[4] تاریخ طبری: ۶/۲۴۱.
[5] الوصیۃ السیاسیۃ فی العصر العباسی، ص: ۴.