کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 508
رواج دیا، لہٰذا اس کا اور اس پر قیامت تک عمل کرنے والوں کا گناہ ان کے سر لادا جاتا رہے گا۔[1] اگر معاویہ رضی اللہ عنہ یا اموی خلفاء نے خلافت کو شوریٰ سے بادشاہت میں تبدیل کر دیا تھا تو ان کے پوتے معاویہ بن یزید بن معاویہ بن ابوسفیان نے جو کہ تیسرے اموی خلیفہ تھے انہوں نے نئے سرے سے خلافت کو بادشاہت سے شوریٰ کاملہ میں تبدیل کر دیا۔[2] حقیقت یہ ہے کہ بیعت یزید کو بہت سارے لوگوں نے حتیٰ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی قبول کر لیا تھا، اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ستر لوگوں نے اس سے بیعت کی تھی جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے۔[3] عبدالرحمن بن ابوبکر کی وفات کے بعد صرف تین مخالفین ابن عمر رضی اللہ عنہما ، ابن زبیر رضی اللہ عنہما اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما ہی باقی رہ گئے تھے۔ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے لوگوں کو یزید پر مجتمع دیکھا تو انہوں نے بھی یزید سے بیعت کر لی، انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید کو بیعت کا پیغام بھیجتے ہوئے کہا: اگر یہ خیر ہے تو ہم اس پر راضی رہیں گے اور اگر یہ کوئی مصیبت ہے تو اس پر صبر کریں گے۔[4]
آخرکار معارضہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما تک محدود ہو کر رہ گیا۔ بعض لوگوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ پر صحیح ہاتھوں میں خلافت دینے میں ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے ان سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر مجھے یزید سے محبت نہ ہوتی تو میں اپنی رشد و ہدایت صاف دیکھ لیتا۔[5] مگر اس کی سند واقدی کے طریق سے ہے اور واقدی متروک ہے،[6] اس نے ان کی طرف یہ بات بھی منسوب کی ہے کہ انہوں نے یزید سے کہا: اللہ تعالیٰ نے میرے جی میں تجھے خلیفہ بنانے سے بڑی کوئی بات نہیں ڈالی۔[7] یہ سند ہیثم بن عدی کے طریق سے ہے اور وہ کذاب ہے۔[8] محمد رشید رضا نے اس روایت پر اعتماد کرتے ہوئے معاویہ رضی اللہ عنہ پر بڑا سنگ دِلانہ حملہ کیا ہے۔[9]اکثر باحثین نے صدر اسلام کی تاریخ سے متعلق ضعیف اور موضوع روایات پر اعتماد کرتے ہوئے ایسے تصورات اور افکار و احکام کی بنیاد رکھی ہے جو نئے سرے سے نظرثانی کے محتاج ہیں۔ اسلامی نظام حکومت کا اعلیٰ ترین نمونہ جو کہ خلافت سے عبارت ہے اور جس میں روح اسلام پورے طور پر جلوہ گر ہوتی ہے اس میں جس قدر بھی تبدیلی آئی[10] مگر حکومت پر اسلامی رنگ ہمیشہ غالب رہا۔ نماز اپنے مقررہ اوقات میں ادا کی جاتی رہی، صاحب نصاب لوگوں سے زکوٰۃ وصول کی جاتی رہی، فرض روزوں کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کی جاتی اور حدود شرعیہ کے نفاذ میں کسی رکاوٹ کو برداشت نہ کیا جاتا، اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ بھی سرانجام دیا جاتا رہا۔ المختصر جملہ تعلیمات اسلامیہ کی
[1] الاسلام و اوضاعنا السیاسیۃ، ص: ۱۵۹.
[2] الدولۃ الامویۃ المفتری علیہا، ص: ۲۹۳، ۲۹۴، ۱۹۵.
[3] القید الشدید، ورقۃ ۱۷ نقلا عن مواقف المعارضۃ، ص: ۱۵۳.
[4] مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱۱/۱۰۰ صحیح سند کے ساتھ.
[5] انساب الاشراف: ۴/۲۸.
[6] مواقف المعارضۃ فی خلافۃ یزید، ص: ۱۵۲.
[7] انساب الاشراف: ۴/۶۰.
[8] مواقف المعارضۃ، ص: ۱۵۲.
[9] مواقف الصحابۃ فی خلافۃ یزید، ص: ۱۵۲۔ الخلافۃ، محمد رشید، ص: ۵۲.
[10] کیف نکتب التاریخ الاسلامی، ص: ۱۱۲.