کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 507
کا التزام نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور نہ ہی خلفاء راشدین کی۔ مزید برآں خلافت کے لیے یزید کی نامزدگی مندرجہ ذیل اسباب کی بناء پر درست نہیں تھی: اس وقت اسلامی معاشرے میں یزید سے کہیں زیادہ خلافت کے حق دار لوگ بھی موجود تھے جو اپنے علم و عمل، مقام و مرتبے، سابق الاسلام اور شرف صحابیت کے اعتبار سے اس سے کہیں بڑھ کر تھے۔ جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرھم۔ چہ نسبت خاک را بعالم پاک۔[1] یہ باپ سے بیٹے کی طرف انتقالِ حکومت کا آغاز تھا۔ علیٰ کل حال اس سے اہل سنت کے عقیدہ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ وہ نہ تو معاویہ رضی اللہ عنہ کو گناہوں سے منزہ قرار دیتے ہیں اور نہ ہی ان سے افضل لوگوں کو، چہ جائیکہ وہ انہیں اجتہادی غلطی سے منزہ قرار دیں، بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ توبہ و استغفار، نیک اعمال اور مصائب و آلام وغیرہ سے انسان کو گناہوں کی سزا سے چھٹکارا مل جاتا ہے اور یہ قانون صحابہ وغیرھم کے لیے بھی ہے۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان بہترین بادشاہوں میں ہوتا ہے جن کا عدل ان کے ظلم پر غالب رہا۔ البتہ وہ انسانی کمزوریوں سے مبرا نہیں ہیں۔ اللہ ان سے درگزر فرمائے گا۔[3] معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہمارے لیے یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ ہمارے دل اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہر قسم کے کینہ وغیرہ سے پاک ہیں۔ ان کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (الحشر: ۱۰) ’’اور جو لوگ ان کے بعد آئے وہ یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کینہ نہ ہونے دے، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا شفیق ہے، بڑا مہربان ہے۔‘‘ ہمارا موقف ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے امت کے تقسیم ہونے اور اس کے فتنہ میں مبتلا ہونے کے ڈر سے اجتہاد کیا۔ ان کے بعد آنے والے تمام امراء اور بادشاہوں کی غلطیوں کو ان کے ذمے ڈال دینا مناسب نہیں ہے۔ جیسا کہ عبدالقادر عودہ قرار دیتے ہیں، وہ لکھتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ نے امت اسلامیہ کا معاملہ ظلم و طغیان اور پامالی حقوق پر قائم کیا، انہوں نے شوریٰ کا خاتمہ کر دیا اور اس ارشاد باری کو معطل کر دیا: ﴿وَ اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ﴾ (الشورٰی: ۳۸) ’’ان کا معاملہ باہم مشاورت سے طے پاتا ہے۔‘‘ انہوں نے صاف ستھرے عادلانہ حکم کو ایسے گندے حکم میں تبدیل کر دیا جو نفسانی خواہشات پر قائم ہے اور انہوں نے لوگوں کو نفاق، ذلت اور پستی میں دھکیل دیا، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عصر حاضر تک ان کے بعد آنے والے حکمران بجز حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ان کی سنت پر عمل پیرا رہے اور ان کی بدعت کے ساتھ چمٹے رہے، چونکہ اس برے طریقے کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے
[1] تاریخنا المفتری علیہا، قرضاوی، ص: ۲۵۰. [2] منہاج السنۃ: ۴/۳۸۵. [3] سیر اعلام النبلاء: ۳/۱۵۶.