کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 43
کے غیر مناسب حل کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ٭ مسلمانوں کی حفاظت کا پورا پورا اہتمام کرنا خصوصاً جب انہیں خطرات کا سامنا ہو۔ اس حفاظتی نظام کو بہتر اور مربوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ذمہ دار لوگوں کی وقتاً فوقتاً جانچ پڑتال کی جائے، ان کی سخت نگرانی کی جائے اور ان پر مکمل اعتماد نہ کیا جائے تاکہ وہ کسی ایسی کوتاہی کا ارتکاب نہ کریں جس کی وجہ سے مسلمانوں کو کوئی نقصان اٹھانا پڑے۔ ٭ ذمہ دار حضرات کے لیے ضروری ہے کہ وہ جرائم کے مرتکبین کو سزا دیتے وقت حد سے تجاوز نہ کریں اور اس کے لیے اعتدال کی راہ اپنائیں۔ اگر سزا کے مستحقین کو سزا دینے میں سستی کا مظاہرہ کیا جائے گا تو حکام کا یہ رویہ انہیں قانون شکنی پر دلیر بنا دے گا اور ان کی دیکھا دیکھی کئی دوسرے لوگ بھی ارتکاب جرائم کے لیے کمربستہ ہو جائیں گے جس کے نتیجہ میں بدامنی کا دور دورہ ہو گا اور معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ ٭ دوسری طرف کسی کو اس کے گناہ کی سزا دیتے وقت ناروا سختی سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ روش اختیار کرنے سے رعیت متنفر ہو گی اور لوگ ناراض ہو کر جتھہ بندی پر اتر آئیں گے۔ سزا ہمیشہ حکمت کے ساتھ اور اعتدال کے دائرہ میں رہ کر دی جائے اور وہ بھی معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کے بعد، تاکہ سزا کا تربیتی مقصد بھی پورا ہو جائے اور تنقید و تنقیص اور ناراضی سے بھی بچا جا سکے۔[1] ٭ مسؤل اور ذمہ دار شخص کو اپنے دائرہ عمل میں وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات کے بارے میں مکمل طور سے آگاہ رہنا چاہیے اور ان سے نمٹنے کے لیے چوکنا اور خبردار بھی، تاکہ افراد رعیت کو یہ احساس ہو کہ ان کے مسائل کو اہمیت دی جاتی ہے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے اچھے لوگوں کی اچھائی میں مزید اضافہ ہو گا اور غلط کار لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ مگر اس کی بنیاد ان کی جاسوسی پر نہیں رکھنا چاہیے اس لیے کہ لوگ اسے اپنی توہین پر محمول کریں گے نیز اس سے تعلقات کی وہ ڈوری بھی منقطع ہو سکتی ہے جو راعی کو اسی کی رعیت کے ساتھ مربوط رکھتی ہے۔ جب تک یہ ڈوری قائم رہے گی لوگوں کو مخالفانہ روش اختیار کرنے سے باز رکھے گی اور یہ وہ روش ہے جس سے معاشرتی زندگی اجیرن ہوتی اور امن عامہ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر اگر یہ ڈوری ٹوٹ جائے اور لوگوں میں تقویٰ بھی کارفرما نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اہم ترین رکاوٹیں بھی ختم ہو گئیں جو لوگوں کو شہوات کے پیچھے بے باکانہ انداز میں دوڑانے کی راہ میں حائل رہا کرتی ہیں اور جب یہ صورت حال پیدا ہو جائے تو حالات کو صحیح ڈگر پر لانا مشکل ہو جاتا ہے، اس لیے کہ ایسے حالات میں بے رحم قوت کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے جس کے نتائج ہمیشہ تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔ ذمہ دار شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل صدق و وفا اور دانا و بینا لوگوں کے ساتھ میل جول رکھا کرے اور ان سے تنقید و توجیہ پر مبنی ایسی باتیں بھی سنا کرے جنہیں عام طور سے پسند نہیں کیا جاتا۔ اس سے اس کا بھی فائدہ ہو گا
[1] التاریخ الاسلامی: ۹/۱۹۵.