کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 36
یہ ترکیب نبوی کا کریمانہ انداز اس قدر موثر ثابت ہوا کہ اس سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے دل و دماغ سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں نفرت و کینہ کے جراثیم کا خاتمہ ہو گیا اور ان پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اگر وہ مخلص رہے تو اسی سے انہیں اسلام میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہو گا وہ قریش مکہ کے ہاں انہیں حاصل شدہ اعزاز و اکرام سے کسی بھی طرح کم نہیں ہو گا۔[1] یہی وہ کریمانہ منہج نبوی ہے جسے لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت علماء کرام اور دعوت الی اللہ کا فریضہ سر انجام دینے والے حضرات کو پورے طور پر اپنانا اور اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔[2]
مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا اسلام بہت خوب رہا اور انہوں نے اسلام کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ آپ غزوہ حنین کے موقع پر اور طائف کا محاصرہ کرتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک عمل رہے۔ ان کی ایک آنکھ اسی دوران ضائع ہوئی جبکہ دوسری آنکھ سے جنگ یرموک کے موقع پر محروم ہو گئے تھے۔[3] بنو ثقیف پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ لات نامی بت کو توڑنے کے لیے بھیجا۔ یہ بت اگرچہ بنوثقیف کا تھا مگر قریش مکہ بھی اس کی بڑی تعظیم کیا کرتے تھے۔ مذکورہ بالا واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے دل میں ایمان گھر کر چکا تھا اور ان کے رگ و ریشہ میں بس چکا تھا۔ قبل ازیں ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام میں جو چیز حائل تھی وہ ریاست و حکومت کے ساتھ ان کی دلی محبت تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ان نفسیاتی عوامل کو ملحوظ خاطر رکھا جن کا نہ صرف یہ کہ ابو سفیان پر گہرا اثر ہوا بلکہ فتح مکہ کے بعد قریش کے سرکردہ لوگوں پر بھی اس کے بڑے اثرات مرتب ہوئے۔ آپ نے نہ صرف یہ کہ فتح مکہ کے دن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کو دارالامان قرار دیا بلکہ غزوۂ حنین کے موقع پر حاصل ہونے والے مال غنیمت سے بھی دوسرے مولفۃ القلوب کی طرح انہیں حصہ دیا گیا۔[4]
زمانہ جاہلیت میں ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو کارروائیاں کیں وہ انہیں بھولے نہیں تھے، لہٰذا انہیں شوق دامنگیر ہوا کہ وہ اس سے کہیں بڑھ کر اسلام کی خدمت کریں گے۔ اسی حوالہ سے مفسر ابن کثیر رقمطراز ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ان کا شمار سادات قریش میں ہوتا تھا جبکہ غزوۂ بدر کے بعد انہوں نے تن تنہا اس منصب کی ذمہ داریاں سنبھال لیں، پھر جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو ان کا اسلام بھی خوب رہا اور انہوں نے جنگ یرموک نیز اس سے ماقبل و مابعد بھی مختلف مواقع پر دفاع اسلام کے لیے قابل تعریف کردار ادا کیا۔[5]
سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جنگ یرموک کے موقع پر مجھے ایک ایسے شخص کی آواز سنائی دے رہی تھی جو کہہ رہا تھا: نصرت الٰہی قریب ہے۔ اس وقت مسلمان اور رومی ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار تھے،
[1] قراء ۃ سیاسیۃ للسیرۃ النبویۃ، محمد رووس، ص: ۲۴۵.
[2] السیرۃ النبویۃ، صلابی: ۲۱۴۹۷.
[3] التبیین فی انساب القرشیین،ص: ۲۰۳.
[4] الدولۃ الامویۃ المفتری علیہا، ص: ۱۴۲.
[5] البدایۃ و النہایۃ: ۱۱؍۳۹۷.