کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 35
پہلی بحث: نام و نسب، کنیت اور خاندان ۱۔ نام و نسب کنیت اور پیدائش: ابو عبدالرحمن معاویہ بن ابو سفیان بن صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن مناف بن قصیّ بن کلاب، قریشی، اموی مکی۔[1] امیر المومنین، شاہ اسلام معاویہ رضی اللہ عنہ مختلف اقوال کی رو سے بعثت نبوی سے پانچ سال، سات سال یا تیرہ سال قبل پیدا ہوئے۔ ان میں سے پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ دراز قد، خوبرو اور بڑی بارعب شخصیت کے حامل تھے، ان کے والدنے ان کے عہد طفولت ہی سے ان میں سنہرے مستقبل کے آثار بھانپ لیے تھے۔ تو وہ ان کی ماں سے کہنے لگے: میرا یہ بیٹا سردار ہو گا، یہ اپنی قوم کی زمام قیادت سنبھالنے کی بدرجہ اتم اہلیت رکھتا ہے، یہ سن کر اس کی ماں کہنے لگی: صرف اپنی قوم کی قیادت؟ میں اسے گم پاؤں اگر یہ تمام عربوں کی قیادت نہ کرے تو۔[3] ابان بن سفیان کا بیان ہے: ایک دن معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں ہند رضی اللہ عنہا کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ وہ لڑکھڑا کر گر پڑے۔ اس پر ان کی ماں کہنے لگی: کھڑا ہو جا اللہ تجھے نہ اٹھائے، یہ منظر دیکھ کر ایک اعرابی کہنے لگا: تو نے ایسا کیوں کہا؟ واللہ! مجھے لگتا ہے کہ یہ بچہ اپنی قوم کی قیادت کرے گا۔ اس پر وہ کہنے لگی: اگر یہ صرف اپنی قوم کی قیادت کرے گا تو پھر اللہ اسے نہ اٹھائے۔[4] ۲۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام: معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا شمار ان سرکش لوگوں میں ہوتا تھا جو قبل از اسلام اسلام کے خلاف برسرپیکار تھے، سیرت نبوی پر مشتمل کتابیں اسلام اور صاحب اسلام کے خلاف ان کے اعمال و کردار کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں مگر جب اللہ نے انہیں رشد و ہدایت سے نوازنا چاہا تو وہ فتح مکہ سے تھوڑا عرصہ قبل مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خصوصی اعزاز سے نوازتے ہوئے فرمایا: ’’جو شخص ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہو گا اسے امن حاصل ہو گا۔‘‘[5] ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی اپنے اندر ایک اہم تربیتی پہلو بھی رکھتا ہے۔ امان کے لیے ان کے گھر کی تخصیص ہی ایک ایسی قابل قدر چیز تھی جس سے سردار ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو ذہنی تسکین حاصل ہوئی۔ اسی چیز نے انہیں اسلام پر ثابت قدمی عطا کی اور انہیں ایمان کی تقویت بخشی۔[6]
[1] سیر اعلام النبلاء: ۳/۱۲۰. [2] الاصابۃ: ۶/۱۵۱۔. [3] البدایۃ و النہایۃ: ۱۱/۳۱۶. [4] سیر اعلام النبلاء: ۳/۱۲۱. [5] صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۴۲۸۰. [6] قصص القرآن: ۲/۴۰۳ سے ماخوذ.