کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 30
ثقافت کے فروغ کا مرکز اور اس علمی دار الحکومت بن گیا۔ قارئین کرام دیکھیں گے کہ شمال افریقہ کی فتوحات کا سلسلہ حضرت عقبہ رحمہ اللہ کی شہادت تک جاری رہتا ہے۔ کتاب میں یہ عنوانات بھی زیر بحث آئے ہیں: اموی سلطنت کے مشرقی بازو خراسان ، سجستان اور ماوراء النہر میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی فتوحات، سندھ کی فتوحات، ان فتوحات کے اہم دروس، عبرتیں اور فوائد جن میں سے اہم یہ ہیں: آیات اور احادیث نبوی کے مجاہدین کے دلوں پر اثرات، فتوحات میں اللہ کے طریقے جیسے اتحاد و اتفاق میں اللہ کا طریقہ، وسائل و اسباب کو اختیار کرنے کا طریقہ، ایک دوسرے کو روکنے اور دفاع کا طریقہ، ظلم اور ظالموں کے بارے میں اللہ کا طریقہ، تعیش پسندوں کے بارے میں اللہ کا طریقہ، سرکشی اور سرکشوں کے بارے میں اللہ کا طریقہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک فتوحات کی حکمت عملی کا نقشہ، روم ، شمالی افریقی محاذ اور سجستان ، خراسان اور ماوراء النہر کے محاذ پر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیاست ، تحریک جہاد کے بارے میں ان کا محکمہ شوریٰ، معاویہ رضی اللہ عنہ کی انتظامیہ میں مرکزی قیادت اور امداد، سرکاری اور قبائلی جھنڈوں کا نظام، جاسوسی، ڈاک اور سلطنت کی بری حدود کا اہتمام ، بحری بیڑے، بحری حدود ، محکمہ فوج اور محکمہ مال کا اہتمام، آپ کے دور میں علمی، معاشی اور معاشرتی اثرات۔ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد کے مجاہدین کی بعض کرامات بھی بیان کی ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ، عبدالملک اور ان کے دونوں بیٹوں ولید اور سلمان کے زمانے میں سلطنت اُمویہ کے فضائل میں وہ وسیع فتوحات بھی ہیں جو انہی کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچیں۔ جس کے نتیجے میں دار السلام میں بہت وسعت آگئی۔ مشرق میں چین اور مغرب میں بلادِ اندلس اور فرانس کے جنوب مغرب کے درمیان تک اسلامی سلطنت کا دائرہ پھیل گیا۔ خلفاء اپنے بیٹوں کو جہاد کے لیے بھیجتے اور خود بھی قتال میں شریک ہوتے، صحابہ رضی اللہ عنہم اور کبار تابعین رحمہم اللہ بھی ان عساکر میں موجود ہوتے تھے، تحریک فتوحات سے سلطنت کا مقام بلند ہوا ان کے ساتھ اسلامی معاشرے میں ہر قسم کے لوگ معرضِ وجود میں آئے جیسے علماء ، فقہاء، تجار ، زہاد اور عبادت گزار لوگ۔ یہ لشکر مشارق و مغارب میں متحرک ہو گئے، ان دور دراز کے اطراف میں واقع قبائل کے فاتحین نے انہیں عدل و احسان دیا، ان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کو پورا کیا، ان تک دین اسلام پہنچایا جس نے اس زمین پر انسانیت کا صحیح مفہوم دیا، اس لیے اسلام بہت جلد ان کے دلوں میں جا گزیں ہو گیا، یہ بڑی نرمی اور چپکے سے افکار میں داخل ہو جاتا ہے، عقل و فہم پر اس کی تاثیر بہت قوی ہے، فاتحین ان قبائل میں وہ حقائق لے کر آئے جن سے اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سعادت مند ہوئے تھے، اور انہوں نے انہی کے ساتھ انہیں بہرہ ور کر دیا۔ شاعر کہتا ہے: