کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 29
مظاہرہ نہ کرنا، مخلص بن جا اور بس اللہ کا ہو کر رہ۔‘‘ اس کے علاوہ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کی تحریک فتوحات کی صورتِ حال بیان کی ہے، تحریک فتوحات کے تذکرے سے پہلے ان شبہات کا محاکمہ کیا ہے جو جھوٹ اور بہتان کی بنا پر اس تحریک فتوحات کے بارے میں پیدا کیے گئے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے تحریک فتح کے اس پہلے ادھورے سلسلے کو ہی بچایا اور مضبوط کیا جس کی قیادت اور تشکیل خلفائے راشدین نے کی تھی۔ تحریک فتوحات کا دوسرا سلسلہ وہ ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہوا ور بعد میں بھی جاری رہا، یہ سلسلہ ولید بن عبدالملک کے دورِ حکومت میں بہت دُور تک پھیل چکا تھا، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بازنطینی حکومت کے خلاف برپا کردہ تحریک جہاد کا بھی میں نے تذکرہ کیا ہے، انہوں نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا منصوبہ بھی بنایا، اس پر غلبہ پانے کے لیے انہوں نے اپنی حکمت عملی کا نقشہ ترتیب دیا، اس کے لیے مصر اور شام میں کشتی سازی کے مراکز بنائے، مصر اور شام کی بحری سرحدوں کو مضبوط کیا، بحر متوسط کے شمال مشرقی جانب واقع جزیروں پر غلبہ حاصل کیا، شام کی شمالی اطراف کو محفوظ کر دیا، آپ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ قسطنطنیہ کے محاصرے کے دوران میں ہی فوت ہوئے تھے۔ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ جہاں تک ممکن ہو انہیں دشمن کے علاقے کے قریب بہت آگے لے جا کر دفن کیا جائے، یہ شاندار منظر ہے جو اُن کے جہاد کے ساتھ تعلق کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کی لاش لوگوں کے کندھوں پر ہو گی، اور وہ ان کی صفوں میں موجود ہوں گے، ان کی خواہش یہ تھی کہ وہ زندہ و مردہ ہر دو حالتوں میں دشمن کی زمین میں دُور تک جائیں، گویا کہ زندگی میں انہوں نے جو کچھ کیا تھا وہ ان کے لیے کافی نہیں تھا تو انہوں نے اپنی وفات کے بعد اس پر مزید اضافے کی تمنا کی، صحیح اور دقیق معنی کے اعتبار سے یہ ایسی چیز ہے کہ حقیقی مجاہد کے نزدیک اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مزید برآں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسلسل بری و بحری حملوں کے ذریعے بازنطینی حکومت کا ناطقہ بند کر دیا، انہوں نے بازنطینوں کو ڈرا دیا، طرح طرح کی تنگیوں اور خوف سے دو چار کر دیا، انہیں پریشان کن نقصانات میں مبتلا کر دیا، اس سارا کچھ کے باوجود وہ قسطنطنیہ کو عبور نہیں کر سکے، اس کے بہت سے عوامل تھے جیسا کہ قارئین کتاب میں ان شاء اللہ دیکھیں گے۔ بازنطینی حکومت کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے صلح کے تعلقات قائم کر لیے، اموی اور بازنطینی دونوں حکومتوں کے درمیان مراسلات، تجربات اور سفراء کا بھر پور تبادلہ ہوتا رہا، جبکہ شمال افریقہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا، حضرت معاویہ بن حدیج رضی اللہ عنہ کا حملہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہی ہوا تھا۔ ان فتوحات میں عقبہ بن نافع کا نام بہت نمایاں ہوا، جنہوں نے قیروان شہر آباد کیا تھا جسے آج تونس کہا جاتا ہے، یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں ہی ہوا تھا، قیروان مغرب میں اسلامی تہذیب و