کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 28
یا ۵۹ ھ کو ہوئی تھی، عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں انھوں نے تقریباًاٹھارہ سال گزارے، اس جلیل القدر صحابی پر دشمنانِ صحابہ کی طرف سے زمانہ قدیم اور عصر حاضر میں ظالمانہ حملے کیے گئے، ان باطل تہمتوں کو مستشرقین کے ایک گروہ نے بھی اختیار کر لیا ہے، لہٰذا میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اس عظیم صحابی کا دفاع کروں کیونکہ وہ سنت نبوی کے بڑے بڑے راویوں میں شمار ہوتے ہیں، ان کا تعارف اور کچھ حالاتِ زندگی پیش کیے ہیں جیسے ان کی عبادات، پاکدامنی، صبر و تحمل اور ان کا عفو و درگزر۔ ان شبہات کی تردید بھی کر دی گئی ہے جو ان کے بارے میں جھوٹے پھیلائے گئے ہیں، جن کا مقصد ہم تک پہنچنے والی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شک و شبہ پیدا کرنا ہے، اس ہدف کو منافقین اس جلیل القدر صحابی پر طعنہ زنی کر کے پورا کرنا چاہتے ہیں، ان کذابوں کا مقابلہ کرنے کے لیے زبانِ حال سے شاعر کا یہ قول منطبق ہوتا ہے:
وإذا اضطررت علی الجدال و لم تجد
لک مہربًا و تلاقت الصّفان
فاجعل کتاب اللّٰہ درعًا سابغًا
والشرع سیفک وابد فی المیدان
والسنۃالبیضاء دونک جُنَّۃ
وارکب جواد العزم فی الجولان
واثبت بصبرک تحت ألویۃ الہدی
فـالصـبـر أوثق عدۃالإنسـان
واطعن برمح الحق کل معاند
للّٰہ درُّ الفارس الطعان
واحمل بسیف الصّدق حملۃ
مخلص مستجردًا للّٰہ غیر جبان
’’جب تو جنگ کرنے کے لیے مجبور ہو جائے اور تجھے بھاگنے کے لیے کوئی چارہ نہ ہو اور دونوں گروہوں کا ٹکراؤ ہو تو کتاب اللہ کو اپنی پوری زرہ بنا لے، شریعت کو اپنی تلوار بنا کر میدان میں نکل آ، چمکدار سنت کو اپنی ڈھال بنا، عزم و ہمت کے برق رفتار گھوڑے پر سوار ہو جا، ہدایت کے جھنڈوں تلے اپنے صبر کے ساتھ جمے رہو، اس لیے صبر انسان کی مضبوط ترین تیاری ہے۔ ہر دشمن پر حق کے نیزے برسا، نیزہ باز گھڑ سوار کا اللہ کے ہاں بڑا مقام ہے، حملہ کرنے کے لیے سچائی کی تلوار اُٹھا، بزدلی کا