کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 26
کیا ہے، اسی طرح میں نے مقاصد شریعت کی فقہ کبیر اور فقہ مصالح و مفاسد کی وضاحت کی ہے، اسی طرح اختلاف سے متعلق فقاہت کی وضاحت کی ہے، سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ اس فقہ میں ممتاز تھے۔ انہوں نے اپنے عظیم اصلاحی منصوبے کی بنیاد رکھی تھی، اسی کی بنیاد پر اُمت مسلمہ ان جدید مراحل میں داخل ہوئی، جن میں موجود تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اور ابنائے اُمت کی طرف سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت مکمل ہوئی۔ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی صفات کی وضاحت کی ہے، جن میں سے اہم یہ ہیں: علم ، فقاہت، حلم و بردباری، عفو و درگزر، ہوشیاری، حیلہ و تدبیر، منفرد عقلیت، باریک بینی کی صلاحیت، عاجزی و انکساری ، تقویٰ و پرہیز کاری اور خشیت الٰہی سے رونا۔ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں علماء کے تعریفی کلمات بھی نقل کیے ہیں، اور اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سلطنت بنو اُمیہ خیر القرون میں داخل ہے، جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ۔)) (بخاری:۶۶۹۵) ’’تمہارے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر جو اُن کے بعد کے زمانے کے ہیں اور پھر جو اُن کے بعد آئیں گے۔‘‘ میں نے بنو اُمیہ کے دار الحکومت (شام) کے بارے میں بحث کی ہے اور اہل شام کے بارے میں احادیث رسول پیش کی ہیں، نیز عہد معاویہ رضی اللہ عنہ کے اہل حل و عقد اور شوریٰ کا تذکرہ کیا ہے، اس کے علاوہ اظہارِ رائے کی آزادی اور ان کی داخلی سیاست جیسے شیوخ صحابہ کی کبار شخصیات اور ان کے بیٹوں سے حسن سلوک کا تذکرہ کیا ہے، اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے اچھا تعلق بیان کیا ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت سے تردید کی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سلطنت بنو اُمیہ کے منبروں پر امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کو عام کر دیا تھا، بعض مؤرخین کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے زہر دلوایا تھا، میں نے علمی دلائل اور روشن براہین سے اسے باطل ثابت کیا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کے بارے میں امیر المؤمنین بننے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مو قف بھی پیش کیاہے ، نیز حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ اور اس بارے میں ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف بیان کیا ہے۔ میں نے ان اُمور کی وضاحت بھی کی ہے: ٭ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی تمام اُمور کی خود نگرانی کرنے اور اپنی خلافت میں امن قائم کرنے کی حرص، حضرت