کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 18
کو بیان کرنے کے لیے قرآن حکیم اور کتب حدیث بھری پڑی ہیں ہم جس صحابی جلیل کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ان کا نام سیّدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما ہے۔ آپ کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا ، پہلے اسے دیکھتے ہیں۔ خاندانِ قریش کی چھوٹی بڑی دس شاخیں تھیں لیکن بنو ہاشم اور بنو اُمیہ ان سب میں سے دنیوی عظمت و وجاہت کے لحاظ سے بہت ممتاز تھے۔ ہاشم بہت سخی اور با مروت انسان تھے ، پورے عرب میں ان کی سخاوت زبانِ زد عام تھی۔ قریش کے دوسرے ممتاز بزرگ امیہ بن شمس تھے جن کا خاندان ، بنو اُمیہ کہلایا۔ ان کے سپرد قریش کہ سپہ سالاری کا عہدہ تھا۔ اگرچہ ابتدا میں قریش کہ سپہ سالاری بنو مخزوم کے پاس تھی ، لیکن عبد شمس کے زمانے میں یہ عہدہ اور منصب بنو اُمیہ کو منتقل ہو گیا۔ چنانچہ عکاظ، فجار اوّل ، فجار دوم وغیرہ سب لڑائیوں میں جو زمانہ جاہلیت میں قریش اور دوسرے خاندانوں کے مابین ہوئیں، سپہ سالاری کے فرائض عبد شمس کے پوتے ابو سفیان کے والد حرب بن اُمیہ نے سر انجام دیے۔حرب بن اُمیہ کی موت کے بعد ابو سفیان رضی اللہ عنہ اس منصب پر فائز ہوئے اور اپنے مسلمان ہونے تک قریش کی سپہ سالاری انہی کے ہاتھوں میں رہی۔ جنگ بدر میں جو کہ اہل اسلام اور اہل کفر کے درمیان سب سے پہلا معرکہ تھا، ابو سفیان قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے ہوئے تھے ، اس وجہ سے ان کے سسر عقبہ بن ربیعہ نے سپہ سالاری کے فرائض انجام دیے، اس کے بعد ان کے اسلام لانے تک جتنے بھی معرکے کفر و اسلام کے درمیان ہوئے ان سب میں قریش کی فوجی قیادت ابو سفیان کے ہاتھ میں رہی۔ بنو اُمیہ نہ صرف قریش کے قائد اور سپہ سالار تھے بلکہ قریش کے دوسرے خاندانوں کی طرح صاحب مال اور تجارت پیشہ بھی تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے خاندان تجارت میں بھی سارے قریش کا لیڈر اور قائد تھا۔ بنو اُمیہ چونکہ قریش کی قیادت عظمی کے عہدے پر فائز تھے لہٰذا انہوں نے اس عہدے کے عظیم فرائض کا احساس کرتے ہوئے اہل اسلام کا آخری دم تک مقابلہ کیا اور ان کا یہ مقابلہ اہل اسلام سے کسی خاندانی چشمک کی وجہ سے نہ تھا بلکہ مسلمانوں کے علاوہ کسی اور جماعت سے اگران کا مقابلہ ہوتا تو اس کے ساتھ بھی بنو اُمیہ یہی سرگرمی دکھاتے ، اس دشمنی کو خاندانی چشمک کا نتیجہ بتانا تاریخ سے جہالت اور بنو اُمیہ کے اصلی حالات سے ناآشنائی کی دلیل ہے۔ تاہم تاریخ اسلام کے اوراق میں آپ کو بنو اُمیہ کے ایسے افراد بکثرت ملیں گے جنہوں نے اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا، یہاں تک کہ حبشہ کی ہجرت اولیٰ میں زیادہ بنو اُمیہ ہی کے لوگ تھے۔ بنو ہاشم میں صرف سیّدنا جعفرطیار رضی اللہ عنہ تھے، باقی سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے تو سخاوت کی حد کر دی ، اسلام کے لیے اتنا زیادہ مال نچھاور کر دیا۔ وہ بھی تو بنی اُمیہ میں سے تھے۔ اس طرح سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد اور والدہ دونوں جب اسلام لائے تو خوب اسلام کی خدمت کی۔ ابو سفیان کی تو اپنی آنکھیں اسلام کے لیے معرکہ حنین اور یرموک میں دیں اس طرح آپ کے دور میں مسلمانوں کی ریاست کی لمبائی ، چوڑائی میں بہت اضافہ ہوا۔ کئی ہزار کلو میٹر تک جا پہنچی۔ آپ کی