کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 134
والی اور اپنے قبیلہ کے سردارتھے۔ یہ وہی جریر بن عبداللہ بجلی ہیں جنہوں نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جب بھی دیکھا مسکرا دئیے۔ انہی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’تمہارے پاس اس دروازے سے وہ شخص آئے گا جس کا شمار یمن کے بہترین لوگوں میں ہوتا ہے جس کے چہرے پر فرشتے کا لمس ہو گا۔‘‘[1]
۶۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی شام روانگی:
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ شام کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہوئے تو اس کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کیا۔ اس لشکر کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات ہیں اور وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔[2] بجز ایک روایت کے جس کی سند حسن ہے۔ اس میں مذکور ہے کہ اس کی تعداد پچاس ہزار تھی۔[3] یہ لشکر نخلہ[4] کے مقام پر جمع ہوا جو کہ اس وقت کوفہ سے دو میل کے فاصلہ پر تھا۔ علی رضی اللہ عنہ کے پاس عراق کے مختلف صوبوں سے قبائل آنا شروع ہو گئے۔[5] آپ اس بھاری بھر کم لشکر کے ساتھ مدائن کی طرف روانہ ہوئے اور اس میں موجود سارے جنگجو بھی اس میں شامل ہو گئے۔ آپ نے مدائن پر سعد بن مسعود ثقفی کو عامل مقرر کیا اور وہاں سے تین ہزار پر مشتمل ایک دستہ موصل روانہ کیا،[6] اور خود دریائے فرات کے مشرقی کنارہ پر واقع جزیرہ کے رئیسی راستے پر چلتے ہوئے قرقیسیا[7] کے قریب پہنچ گئے۔ اس دوران آپ کے پاس یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ ان سے ٹکراؤ کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ صفین کے مقام پر خیمہ زن ہو چکے ہیں۔ اس پر علی رضی اللہ عنہ بھی رقہ[8] کی طرف بڑھے، رقہ کے قریب سے دریائے فرات کو عبور کیا اور صفین کے مقام پر ڈیرے ڈال دئیے۔[9]
۷۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی صفین کی طرف روانگی:
جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو عراقی لشکر کی صفین کی طرف پیش قدمی کا علم ہوا تو انہوں نے شام کے سرکردہ لوگوں پر مشتمل اپنے مشیروں کو جمع کیا اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: حضرت علی عراقیوں کے ساتھ تمہارا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس پر ذو الکلاع حمیری کہنے لگا: آپ حکم کریں ہم آپ کے ہر حکم کی تعمیل کریں گے۔[10] قبل ازیں اہل شام عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے اور اس کے لیے جنگ کرنے پر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کر چکے تھے۔ [11] عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ لشکر کو جنگ کی ترغیب دلانے کے لیے گویا ہوئے: اہل عراق نے اپنی وحدت کو پارہ پارہ
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۲۴۷۵.
[2] سیرۃ امیر المومنین علی بن ابی طالب: ۲/۶۳۰.
[3] تاریخ خلیفۃ، ص: ۱۹۳، حسن سند کے ساتھ.
[4] نخلہ، شام کی طرف سے کوفہ کے قریب ایک جگہ۔ معجم البلدان: ۵/۲۷۸.
[5] خلافۃ علی بن ابی طالب از عبدالحمید، ص: ۱۸۸.
[6] تاریخ طبری: ۵/۶۰۳ منقطع سند کے ساتھ.
[7] قرقیسیا، دریائے فرات میں گرنے کے مقام پر دریائے خابور پر واقع ایک شہر۔ معجم البلدان: ۴/۳۲۸.
[8] رقہ، شام میں دریائے فرات پر واقع ایک مشہور شہر.
[9] تاریخ طبری: ۵/۶۰۴.
[10] الاصابۃ: ۱/۴۸۰، خلافۃ علی بن ابی طالب از عبدالحمید، ص: ۱۹۲.
[11] انساب الاشراف: ۲/۵۲.