کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 121
امام حاکم لکھتے ہیں: ’’بدعتی لوگوں کا یہ دعویٰ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت میں باغیوں کو امیرالمومنین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کا تعاون حاصل تھا محض کذب ہے۔ متواتر اخبار و روایات صورت حال اس کے برعکس بتاتی ہیں۔‘‘[1] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہ سب کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر محض کذب و افتراء ہے، وہ نہ تو قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک ہوئے نہ اس کا حکم دیا اور نہ اسے پسند ہی کیا۔ ان سے یہی کچھ مروی ہے، اور وہ بالکل سچے ہیں۔‘‘[2] حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا تھا: میرے اللہ! میں تیرے حضور عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہوں۔[3] بعض کتب تاریخ نے شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے فتنہ کے دوران اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موقف کو مسخ کر کے پیش کیا ہے، جس کی وجہ سے مؤرخین کی بیان کردہ ضعیف اور موضوع روایات ہیں۔ تاریخ طبری اور دیگر کتب تاریخ میں مندرجہ ابومحنف، واقدی اور ابن أعثم کی روایات کے حوالے سے فتنہ کے احداث کا مطالعہ کرنے والا ہی تاثر لیتا ہے کہ اس تحریک کو چلانے والے اور اس کی آگ کو بھڑکانے والے دراصل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ ابو محنف رافضی ہے، جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بار بار یہ تہمت لگاتا ہے کہ ان سے بکثرت غلطیاں سرزد ہوئیں، لہٰذا وہ اس چیز کے مستحق تھے۔ جبکہ طلحہ اپنی مرویات میں ایک ایسے شخص کے روپ میں سامنے آتا ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کوئی انتقام لینا چاہتا ہو۔ واقدی کی روایات بھی ابومحنف کی روایات جیسی ہی ہیں۔ روافض سے ایسی روایات بکثرت وارد ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف سازش کرنے کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تہمت لگاتی ہیں۔ اور یہ کہ ان لوگوں نے فتنہ کو تحریک دی اور لوگوں کو اشتعال دلایا۔ مگر یہ سب کچھ جھوٹ اور فریب کاری ہے۔[4] ضعیف اور موضوع روایات کے برعکس بحمداللہ تعالیٰ کتب حدیث نے ہمارے لیے ایسی صحیح روایات کو محفوظ رکھا ہے جن سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دست و بازو بنے۔ ان کا دفاع کیا اور ان کے قتل سے لاتعلق رہے۔[5] اور پھر ان کی شہادت کے بعد ان کے قصاص کا مطالبہ لے کر اٹھے۔ یہ سب کچھ اس امر کی دلیل ہے کہ فتنہ کو تحریک دینے اور اسے ہوا دینے میں صحابہ رضی اللہ عنہم کسی طرح سے بھی شریک عمل نہیں تھے۔[6] تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عثمان رضی اللہ عنہ کے خون ناحق سے لاتعلق ہیں۔ جو شخص بھی اس کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو اس کی بات باطل ہے۔ اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی ایک بھی صحیح دلیل نہیں ہے۔ خلیفہ اپنی تاریخ میں عبدالاعلی بن ہیثم سے روایت کرتے ہیں اور وہ اپنے باپ سے کہ میں نے حسن رضی اللہ عنہ سے
[1] مستدرک حاکم: ۳/۱۰۳. [2] منہاج السنۃ: ۴/۴۰۶. [3] العقیدۃ فی اہل البیت بین الافراط و التفریط، ص: ۲۲۹، طبقات ابن سعد: ۳۱۳ اس کی سند حسن ہے. [4] تحقیق مواقف الصحابۃ: ۱۴/۲۰. [5] خامس الخلفاء الراشدین الحسن بن علی از صلابی، ص: ۱۲۳. [6] تحقیق مواقف الصحابۃ: ۱۴/۲۰.