کتاب: سیدنا معاویہ بن سفیان شخصیت اور کارنامے - صفحہ 110
زمانہ اسلام میں صرف اللہ عز و جل کی وجہ سے عزت نصیب ہوئی۔ یہ درست ہے کہ قبیلہ قریش عربوں کا اکثریتی قبیلہ نہیں تھا اور نہ وہ سب سے زیادہ طاقتور ہی تھا تاہم وہ حسب و نسب میں سب سے زیادہ شریف اور معزز تھا۔ اس کا مقام و مرتبہ سب سے بلند تھا اور وہ شرافت و مروت میں کامل ترین تھے۔ دور جاہلیت میں لوگ ایک دوسرے کو کھائے جا رہے تھے مگر اللہ کے فضل و کرم سے یہ قبیلہ ایسی صورت حال سے محفوظ تھا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جسے عزت سے نوازتا ہے اسے ذلیل نہیں کرتا اور جسے سربلند کرتا ہے اسے کا سرنگوں نہیں کرتا، کیا تم نہیں جانتے کہ عربی ہوں یا عجمی، کالے ہوں یا گورے، ہر قوم پر کسی بیرونی قوت نے ضرور حملہ کیا اور ان کے ملک کی عزت و حرمت کو نقصان پہنچایا مگر قریش اس آفت سے محفوظ رہے۔ جس کسی نے بھی انہیں نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا اللہ نے اس کا سر نیچا کیا اور قبیلہ قریش کو عزت بخشی پھر اللہ رب العزت نے اس قبیلہ کو مزید عزت سے نوازا، اسے دنیا کی ذلت اور آخرت کے انجام بد سے نجات دلوائی تو اللہ تعالیٰ نے اسی قبیلہ سے بہترین شخص کا انتخاب کیا۔ پھر ان کے لیے ان کے ساتھیوں کا انتخاب کیا، چنانچہ ان کے بہترین صحابہ رضی اللہ عنہم قریش ہی میں سے تھے۔ پھر ان لوگوں نے اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی اور اللہ نے خلافت بھی ان لوگوں میں رکھی اور اس کے لیے زیادہ موزوں بھی یہی لوگ تھے۔ جب اللہ رب العزت نے قریش کو اس وقت محفوظ و مامون رکھا جب وہ اس کے منکر تھے تو کیا وہ ان کی اس وقت حفاظت نہیں فرمائے گا جب وہ اپنے آباء و اجداد کے دین کو ترک کر کے اس کے دین کو قبول کر چکے ہیں؟ دورِجاہلیت میں اللہ تعالیٰ نے قریش کو ان بادشاہوں سے محفوظ و سالم رکھا جو تم پر غالب آ گئے تھے۔ افسوس ہے تجھ پر اور تیرے ان ساتھیوں پر، کاش تیرے علاوہ کوئی اور شخص مجھ سے بات کرتا۔ آپ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اے صعصعہ! اس زمانہ میں تیری بستی عرب کی بدترین بستی تھی۔ اس کی پیداوار سب سے زیادہ بدبودار اور اس کی وادی دوسری تمام وادیوں سے زیادہ عمیق تھی اور جو شر و فساد میں سب سے زیادہ شہرت رکھتی تھی اور یہ اپنے پڑوسیوں کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ اس بستی میں جب بھی کسی شخص نے قیام کیا وہ شریف ہو یا رذیل اس پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی اور اسے بدنام کر دیا گیا۔ وہاں کے رہنے والے سب لوگ تمام عربوں میں بدنام تھے۔ ہر ایک سے لڑنا جھگڑنا ان کا شیوہ تھا اور وہ ایرانیوں کے زیر تسلط تھے۔ جب تمہارے پاس اسلام کی دعوت پہنچی تو تم نے مدینہ منورہ آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول نہ کیا، بلکہ تو اس وقت عمان میں رہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں شریک بھی نہ ہوا۔ تو تو اپنی قوم کا بدترین شخص ہے۔ یہاں تک کہ جب اسلام نے تجھے نمودار کیا اور تو مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان لوگوں پر غالب آیا جو قبل ازیں تم پر غالب تھے تو تو اللہ کے دین میں کج روی اختیار کرنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ ذلت و رسوائی کے کاموں کی طرف مائل ہونے لگا، مگر قریش ایسا نہیں کرتے۔ تیری ان حرکتوں کی وجہ سے قریش کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور نہ تو انہیں کوئی نقصان ہی پہنچا سکے گا اور اس طرح تم انہیں ان کے فرائض کی ادائیگی سے روک نہیں سکو گے۔ یاد رکھنا کہ شیطان تم سے غافل نہیں ہے، اس نے شر پھیلانے کے لیے تمہاری قوم سے تمہیں چن لیا ہے اور وہ تمہارے ذریعہ سے لوگوں کو فریب دے رہا ہے، شیطان