کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 93
زیارت سے منع فرما دیا تاکہ شرک و توحید اور جاہلیت و اسلام کے ادوار میں حد فاصل قائم کی جا سکے، پھر جب ان کے قلوب و اذہان میں اسلامی عقائد و تعلیمات مستحکم ہو گئے اور زمین اور زمین والوں کے تقدس کی طرف ان کا التفات نہ رہا[1] تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا:
’’میں قبل ازیں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا مگر اب تم ان کی زیارت کر سکتے ہو، اس لیے کہ قبریں آخرت کو یاد دلاتی ہیں ۔‘‘[2]
دوسری روایت میں ہے:
’’اس لیے کہ قبروں کی زیارت کرنے سے یاددہانی ہوتی ہے۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے:
’’قبروں کی زیارت آخرت یاد دلاتی ہے۔‘‘[3]
تیسری روایت میں ہے:
’’ان کی زیارت کیا کرو اور چاہیے کہ ان کی زیارت تمہاری خیر میں اضافہ کرے۔‘‘[4]
چوتھی روایت اس طرح سے ہے:
’’اس میں عبرت ہے۔‘‘[5]
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’پھر مجھے یہ بات آئی کہ زیارت قبور دل نرم کرتی، آنکھوں سے آنسو بہاتی، موت اور آخرت یاد کرواتی اور دنیا میں زاہد بناتی ہے۔‘‘
زائر قبور کو اس امر کے لیے حریص ہونا چاہیے کہ اس کا یہ فعل اس کی خیر اور بھلائی میں اضافہ کرے۔ یہ سب چیزیں تو زائر کے اپنے حوالے سے تھیں ۔ [6]
رہے شہر خموشاں کے باسی، تو اس سے انہیں بھی حصہ میسر آتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے تو ان کے لیے رحمت کی دعا فرماتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی میرے پاس رات گزارتے تو رات کے آخری حصے میں بقیع تشریف لے جاتے اور یہ دعا پڑھتے:
[1] من قتل الحسین، ص: ۱۱۳۔