کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 64
آئے۔[1] رہی یہ مرفوع حدیث کہ ’’میری امت کا معاملہ قائم رہے گا یہاں تک کہ بنو امیہ میں سے ایک شخص، جسے یزید کہا جائے گا، اس میں دراڑیں ڈال دے گا۔‘‘ تو یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں کئی ایک علل ہیں ۔[2] اس حدیث کو ابو یعلیٰ نے اپنی مسند میں صدقۃ السمین کے طریق سے روایت کیا ہے، وہ ہشام سے، وہ مکحول سے اور وہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کرتا ہے اور اس میں دو علّتیں ہیں : الف: صدقۃ السمین کا ضعف:… اس کا پورا نام ابو معاویہ صدقہ بن عبداللہ السمین دمشقی ہے۔ اسے ابن معین، بخاری، ابو زرعہ اور نسائی نے ضعیف کہا ہے۔ احمد فرماتے ہیں : اس کی کوئی حدیث مرفوع نہیں ہے اور یہ منکر ہے اور اس نے مکحول سے جو حدیث مرسل بیان کی ہے وہ زیادہ نرم ہے اور یہ بہت زیادہ ضعیف ہے۔ مزید فرماتے ہیں وہ کسی چیز کو درست نہیں رکھتا، اس کی احادیث منکر ہیں ۔ دار قطنی فرماتے ہیں : وہ متروک ہے۔[3] ب: مکحول اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اس لیے کہ اس نے ان سے ملاقات نہیں کی۔[4] ابن کثیر یزید کی مذمت میں وارد احادیث کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ابن عساکر نے یزید کی مذمت میں جتنی بھی روایات ذکر کی ہیں وہ ساری کی ساری موضوع ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح نہیں ہے، ان میں سے سب سے عمدہ حدیث ’’ضعیف‘‘ ہے جس کی سند منقطع ہے۔[5] قتل حسین رضی اللہ عنہما کے بارے میں وارد قصے کہانیاں : اہل تشیع نے اس حادثہ فاجعہ کی تفصیلات نقل کرنے میں مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے اور ان کی کتابیں عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہیں ۔ مثلاً قتل حسین رضی اللہ عنہ کے بعد آسمان کے کنارے سرخ ہو گئے، پتھروں کے نیچے سے خون نکلنے لگا اور جنات رونے لگے اور یہ اس قسم کی دیگر بے سروپا باتیں شیعہ نے اس وقت ہی گھڑ لی تھیں اور جنہیں وہ آج تک اس واقعہ کی اہمیت کو بڑھانے اور دیگر واقعات کو گہنانے کے لیے دہرائے چلے جاتے ہیں ۔[6] مگر جو شخص ان اخبار و مرویات کی اسناد کا جائزہ لے گا تو اسے سوائے ضعف کے اور کچھ نظر نہیں آئے گا یا پھر اسے کوئی ایسا مجہول راوی نظر آئے گا جس کی اصل غیر معروف ہو گی یا پھر وہ ایسا مدلس ہو گا جس کا مقصد لوگوں کو حقائق تک رسائی سے روکنا ہو گا۔[7]
[1] مسند احمد: ۴/۳۶۷۔ [2] الفتاوی: ۴/۲۹۷، ۲۹۸۔