کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 63
کسی کا نام لے کر اس پر لعنت کرنے کو پسند نہیں کرتے، جبکہ بعض علماء اس پر لعنت بھی کرتے ہیں اور اس میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے لیکن پہلا قول زیادہ پسندیدہ اور احسن ہے۔ مگر جس شخص نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا اس کے لیے تعاون کیا یا اسے پسند کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے، اللہ تعالیٰ اس کی کوئی بھی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں کرے گا۔ اس نے سوال کیا: اہل بیت کے ساتھ محبت کرنے کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہمارے نزدیک اہل بیت سے محبت کرنا فرض ہے اور اس سے آدمی کو اجر ملتا ہے۔ صحیح مسلم میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع غدیر خم کے مقام پر ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’لوگو! میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں : ’’کتاب اللہ اور میری عترت میرے اہل بیت۔‘‘[1] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سے فرمایا: ’’ہم اپنی نمازوں میں ہر روز یہ درود پڑھتے ہیں :
((اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ))
’’یا اللہ! رحم و کرم فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جس طرح تو نے رحم و کرم فرمایا ابراہیم پر، بے شک تو تعریف کے قابل اور بزرگی والا ہے، اے اللہ برکت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمدؐ پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر، بے شک تو تعریف کے قابل اور بزرگی والا ہے۔‘‘
مغل ایلچی کہنے لگا: اہل بیت سے بغض رکھنے والے کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ آپ نے فرمایا: اہل بیت سے بغض رکھنے والے پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ اس سے نہ نفلی عبادت قبول فرمائے گا نہ فرضی۔ اس کے بعد ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مغل وزیر سے فرمایا: تم نے یزید کو ناصبی کیوں کہا؟ اس نے جواب دیا: لوگوں نے اسے بتایا ہے کہ اہل دمشق ناصبی تھے۔ یہ سن کر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بآواز بلند فرمایا: یہ کہنے والا جھوٹ بولتا ہے اور جس نے بھی یہ بات کی اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، اللہ کی قسم اہل دمشق ناصبی نہیں تھے اور نہ مجھے وہاں موجود کسی ناصبی کا علم ہی ہے۔ اگر دمشق میں کوئی شخص علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرتا تو مسلمان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے۔[2] ہمیں معلوم ہونا چاہتے کہ یزید کو لعنت کرنے کا رواج دولت عباسیہ کے قیام کے بعد پڑا جب بنو امیہ پر اعتراضات کرنے کے لیے لوگوں کو وسیع مواقع میسر
[1] بخاری، رقم الحدیث: ۲۹۲۴۔
[2] الفتاوی: ۴/۲۹۷۔