کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 62
واقعہ حرہ وغیرہ، تو وہ ان کے بارے میں تاویل پر تھا، ان کا کہنا ہے کہ یزید مجتہد مخطی تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اہل حرہ اس سے نقض بیعت کے مرتکب ہوئے جسے ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ نے بھی کراہت کی نظر سے دیکھا۔ جہاں تک قتل حسین رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو یزید نے اس کا حکم نہیں دیا تھا اور اسے پسند بھی نہیں کیا تھا بلکہ اس نے تو ان کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا اور ان کے قاتل کی مذمت کی۔ حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک اس کے سامنے پیش نہیں کیا گیا تھا بلکہ اسے ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ دوسرا ماخذ:… صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسطنطنیہ سے جنگ کرنے والے پہلے لشکر کی مغفرت کر دی گئی ہے۔‘‘[1] جس پہلے لشکر نے قسطنطنیہ سے جنگ کی اس کا امیر یزید تھا۔ تحقیق یہ ہے کہ ان دونوں اقوال میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے، اسی طرح اس شخص سے محبت کرنا جو نیک اعمال بھی کرتا ہے اور برے بھی، بلکہ ہمارے نزدیک تو اس امر میں بھی منافات نہیں ہے کہ ایک ہی آدمی میں حمد و ذم اور ثواب و عقاب جمع ہو جائے۔ اسی طرح اس امر میں بھی منافات نہیں ہے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے، اس کے لیے دعا کی جائے اور اس پر لعنت بھی کی جائے اور اس پر سب و شتم بھی کیا جائے، اس لیے کہ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ملت اسلامیہ کے فاسق لوگ بھی ایک نہ ایک دن جنت میں ضرور داخل ہوں گے، اگرچہ وہ جہنم میں داخل بھی ہو جائیں یا اس کے مستحق قرار پائیں ۔ اس طرح ان میں ثواب و عقاب اکٹھے ہو جائیں گے۔ مگر خوارج اور معتزلہ اس سے انکار کرتے ہیں ، ان کے نزدیک ثواب کا مستحق عقاب کا مستحق نہیں اور جو مستحق عقاب ہے وہ مستحق ثواب نہیں ۔[2] جہاں تک آدمی کے لیے دعا یا بددعا کا تعلق ہے تو ہر فوت شدہ نیک و بد مسلمان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اگرچہ اس کے ساتھ ساتھ فاجر کو باالتعیین یا بالنوع لعنت کرنا بھی جائز ہے۔ مگر پہلی حالت زیادہ عادلانہ ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے جب ایک مغل ایلچی نے یزید کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: ہم نہ تو اسے گالی گلوچ کرتے ہیں اور نہ اس سے محبت ہی کرتے ہیں ، یزید کوئی نیک انسان نہیں تھا کہ ہم اس سے محبت کریں اور ہم کسی مسلمان کا نام لے کر اسے سب و شتم نہیں کرتے۔ اس نے کہا: تم اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟ کیا وہ ظالم نہیں تھا؟ کیا وہ حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: جب ہمارے سامنے حجاج بن یوسف اور اس جیسے ظالم حکمرانوں کا ذکر ہوتا ہے تو ہم اسی طرح کہتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: ﴿اَلَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ﴾ (ہود: ۱۸) ’’خبردار ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔‘‘ ہم
[1] بخاری، رقم الحدیث: ۶۷۸۰۔ [2] بخاری: ۶۶۵۲۔ [3] الفتاوی: ۴/۲۹۶۔ [4] یعنی علی بن محمد طبری متوفی ۵۰۴ ہجری، ان کا لقب عماد الدین ہے۔ [5] الفتاوی: ۴/۲۹۷۔