کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 61
کو اسے خاص کر کے لعنت نہیں کی جاتی اور یہ ممانعت یا تو تحریمی طور پر ہے یا تنزیہی طور پر۔ صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ’’حمار‘‘ کے قصہ میں ثابت ہے کہ جب اس نے بار بار شراب نوشی کی اور اسے باربار کوڑے بھی مارے گئے تو جب بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس پر لعنت کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے لعنت نہ کرو، یہ شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔‘‘[1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کو لعنت کرنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔‘‘[2]
یہ اس امر کے باوجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عمومی طور پر شراب نوشی کرنے والے کے لیے لعنت کرنا ثابت ہے اور یہ اسی طرح ہے جیسا کہ یتیم کا مال کھانے والے، زانی اور چور کے لیے عمومی طور پر وعید کی نصوص وارد ہیں ۔ مگر ہم کسی معین شخص کے لیے اس کے جہنمی ہونے کی شہادت نہیں دے سکتے۔ اس لیے کہ ممکن ہے اس نے توبہ کر لی ہو، یا اس نے گناہوں کو مٹانے والی نیکیاں کی ہوں ، یا اسے گناہوں کا کفارہ بننے والے مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہو، یا اس کے حق میں کسی کی سفارش قبول ہو جائے۔[3]
یزید پر لعنت کرنے والے بعض لوگوں کے نزدیک ترک لعنت فضول گفتگو کے حوالے سے تمام مباح امور کے ترک جیسا ہے۔
جو علماء اس پر لعنت کرتے ہیں مثلاً ابو الفرج ابن جوزی اور کیا الہراسی[4] وغیرہ، تو یہ اس بنا پر ہے کہ ان کے نزدیک اس سے ایسے متعدد افعال کا صدور ہوا جو اس کے لیے لعنت کو مباح قرار دیتے ہیں ، پھر وہ کبھی تو یہ کہتے ہیں کہ یزید فاسق ہے اور فاسق کو لعنت کی جا سکتی ہے اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ صاحب معصیت کو لعنت کی جا سکتی ہے اگرچہ اس پر فسق کا حکم نہ لگایا جا سکے۔ اس پر اس کے کبیرہ گناہوں کی وجہ سے بھی لعنت کی جا سکتی ہے اگرچہ تمام فاسقوں پر لعنت نہیں کی جا سکتی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی قسم کے اہل معاصی اور کئی عصاۃ پر لعنت فرمائی اگرچہ تمام اہل معاصی پر لعنت نہیں کی جا سکتی۔ یزید کو لعنت کرنے کے یہ تین مآخذ ہیں ۔[5]
رہے وہ لوگ جو یزید کے ساتھ محبت کو جائز قرار دیتے یا اس سے محبت کرتے ہیں مثلاً غزالی اور دستی، تو ان کے پاس دو مآخذ ہیں :
پہلا ماخذ:… یزید مسلمان ہے اور اس نے عہد صحابہ میں منصب خلافت سنبھالا اور اس وقت تک موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا ساتھ دیا اور اس میں کچھ خصال محمودہ بھی تھیں ۔ رہے قابل اعتراض واقعات مثلاً
[1] الفتاوی: ۴/۲۹۵۔