کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 60
نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے کوشاں رہا، وہ حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر کے اپنے دادا عتبہ، اس کے بھائی شیبہ، ولید بن عتبہ اور ان لوگوں کا انتقام لینا چاہتا تھا جو جنگ بدر کے دن اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ جو روافض ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو کافر کہتے ہیں ان کے لیے یزید کو کافر کہنا اس سے بھی زیادہ آسان ہے۔
دوسرے گروہ کے نزدیک وہ ایک صالح انسان اور عادل امام تھا اور اس کا شمار ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پیدا ہوئے، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی، ان میں سے بعض لوگ تو اسے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دیتے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ لوگ اسے نبی بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ مگر یہ دونوں قول باطل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سنت میں مشغول اہل علم اور کسی عقل مند شخص کی طرف منسوب نہیں ہیں ۔[1]
تیسرا قول یہ ہے کہ یزید دوسرے مسلمان بادشاہوں کی طرح ایک بادشاہ تھا، اس کے نامہ اعمال میں کچھ نیکیاں بھی ہیں اور کچھ برائیاں بھی اور یہ کہ وہ کافر نہیں تھا۔ اس کے دورِ حکومت میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ مقتول ہوئے اور اہل حرہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ یزید نہ تو صحابی رسول تھا اور نہ اس کا شمار اولیاء اللہ میں ہی ہوتا ہے۔ یہ قول اکثر اہل سنت و الجماعت اور اہل عقل و علم کا ہے۔
اس کے بعد یہ فرقہ تین مزید فرقوں میں تقسیم ہو گیا:
ایک فرقہ اس پر لعنت کرتا ہے۔ ایک فرقہ اس سے محبت کرتا ہے اور تیسرا نہ تو اس سے محبت کرتا ہے اور نہ اسے لعنت ہی کرتا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ سے یہی منصوص ہے، ان کے شاگردوں میں سے میانہ رو اور دیگر تمام مسلمانوں کا یہی مذہب ہے۔
صالح بن احمد کہتے ہیں : میں نے اپنے باپ سے کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ یزید سے محبت کر سکتا ہے؟ میں نے کہا: ابا جان! تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟
انہوں نے فرمایا: تو نے اپنے باپ کو کسی کو لعنت کرتے کب دیکھا تھا؟
جب ابو محمد مقدسی سے یزید کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: جو کچھ مجھے معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اسے نہ تو گالی دی جائے اور نہ اس سے محبت ہی کی جائے۔ یہ یزید اور اس جیسے دیگر لوگوں کے بارے میں عادلانہ اور خوبصورت اقوال ہیں ۔ جہاں تک اسے سب و شتم اور لعنت نہ کرنے کا تعلق ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ اس سے اس فسق و فجور کا صدور ثابت نہیں ہے جو ان کا متقاضی ہو، یا وہ اس بنا پر ہے کہ معین فاسق
[1] الامویون بین الشرق و الغرب: ۱/۲۴۴۔
[2] العالم الاسلامی فی العصر الاموی، ص: ۴۷۸۔
[3] الامویون بین الشرق و الغرب: ۱/۲۴۵۔