کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 59
جاتے ہیں کہ آخر دنیا کو فنا ہونا ہے، مقام و منصب کو زوال آنا ہے اور اقتدار و اختیار کا خاتمہ ہو کر رہنا ہے، ابن سعد کو غداروں اور خائنوں کے ناموں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانے اور مجرموں اور ظالموں کے رجسٹر میں نام مندرج کروانے کی ضرورت نہیں تھی، اگر وہ اپنے مقام و منصب کی قربانی دیتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو قبول کر لیتا تو متاع دنیا سے اس کا جو حصہ مقرر تھا وہ اسے مل کر ہی رہتا اور اللہ کے نزدیک نیک اور پارسا لوگوں میں شمار ہوتا۔[1] ۴۔ یزید بن معاویہ: … جہاں تک یزید کا تعلق ہے تو ظاہر امر یہ ہے کہ اس نے قتل حسین کو ناپسند کیا لیکن اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو خروج سے منع کیا تھا، اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کو خروج سے منع کیا جائے۔ جب آپ کا سر مبارک اس کے سامنے رکھا گیا تو اس نے کہا: اللہ ابن مرجانہ پر لعنت کرے، میں قتل حسین رضی اللہ عنہ کے بغیر بھی تمہاری اطاعت سے راضی ہو جاتا،[2] اللہ کی قسم! اگر ان کا صاحب میں ہوتا تو ان سے درگزر کرتا، مگر یزید کی طرف سے قتل حسین پر آہ و بکا کرنا اور ابن مرجانہ کو سب و شتم کرنا اسے حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا کے قتل کی ذمہ داری سے مکمل آزاد نہیں کرتا اور یہ اس لیے کہ وہ ابن زیاد کو واضح حکم دے سکتا تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے سے باز رہنا اور ان کے ساتھ حکمت اور عقل مندی پر مبنی رویہ اپنانا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی رشتہ داری اور قرابت داری کا پاس کیا جا سکے اور مسلمانوں کے دلوں میں ان کا جو احترام ہے اسے ملحوظ رکھا جا سکے۔ بہر حال ایک درجے میں قتل حسین رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری یزید پر عائد ہوتی ہے ، اس لیے کہ وہ اس کے دورِ حکومت میں شہید ہوئے اور اس زمین پر ہوئے جس پر اس کی افواج کا قبضہ تھا۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تو عراق یا شام میں غیر ہموار راستے کی وجہ سے بکری یا خچر کی ذمہ داری بھی قبول کرتے تھے، لیکن اگر اس کے قاتل ان کے اپنے ہی لشکری ہوتے تو پھر کیا ہوتا؟[3] قتل حسین رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ کے دورِ حکومت پر رہتی دنیا تک سیاہ داغ رہے گا۔ یزید کے بارے میں لوگوں کے اقوال ، نیز کیا اسے لعنت کرنا جائز ہے؟ یزید کے بارے میں لوگ تین گروہوں میں منقسم ہیں : ایک گروہ کے نزدیک یزید کافر و منافق تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لینے کی غرض سے
[1] عبدالملک بن مروان و الدولۃ الامویۃ، ص: ۱۰۵۔ [2] انساب الاشراف: ۳/۲۱۹، ۲۲۰۔ حسن سند کے ساتھ۔