کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 58
ہوتی ہے۔ یہ سلف کا بدترین خلف یا ایک عظیم باپ کا انتہائی گھٹیا بیٹا تھا، اس کے بعد قتل حسین رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری اس کے لشکر پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے آل حسین رضی اللہ عنہ پر ترس کھائے بغیر اس کے ظالمانہ احکامات کی تعمیل کی، اس کے لشکر کے لیے اس واقعہ سے الگ رہنا یا حسین رضی اللہ عنہ کی صفوں میں شامل ہونا ممکن تھا، جیسا کہ اس کے پہلے قائد حر بن یزید نے کیا، جب انہوں نے دیکھا کہ ابن زیاد اور اس کے ساتھیوں نے حسین رضی اللہ عنہ کی منصفانہ درخواست کو ردّ کر کے ظلم و زیادتی کا ارتکاب کیا ہے تو وہ حسین رضی اللہ عنہ کے کیمپ میں چلے گئے اور آخر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔[1] ابن سعد شروع میں حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے نہیں نکلا تھا بلکہ وہ چار ہزار جنگجوؤ ں کے ساتھ ’’دیلم‘‘ سے جنگ کرنے کے لیے روانہ ہو چکا تھا، جب ابن زیاد کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں اطلاع ملی تو اس نے ابن سعد کو حسین رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے کے لیے ان کی طرف بھیج دیا اور اس سے کہا: حسین کے ساتھ قتال کرو اور ادھر سے فارغ ہو کر دیلم کی طرف پلٹ جانا۔ ابن زیاد نے اسے ’’رے‘‘ کی امارت دے رکھی تھی، اس نے ابن زیاد سے اس بارے میں معذرت کی مگر ابن زیاد نے اسے ’’رے‘‘ کی امارت سے معزول کر دینے کی دھمکی دی تو وہ لوگوں سے مشورہ کرنے لگا ان سب نے اسے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑنے کے لیے روانگی سے منع کیا، اس کے بھانجے حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ نے اس سے کہا: ماموں ! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف مت اٹھیں ، اگر آپ نے یہ کام کیا تو اپنے رب کی نافرمانی کریں گے اور قطع رحمی کے مرتکب ہو ں گے، اگر آپ اپنی دنیا، اپنے مال اور حکومت سے محروم ہو جائیں تو یہ آپ کے لیے اس بات سے بہترہے کہ آپ حسین رضی اللہ عنہ کے ناحق خون سے اپنے رب سے ملاقات کریں ۔[2] اس کے جواب میں ابن سعد نے کہا: میں ان شاء اللہ ایسا ہی کروں گا۔ مگر چونکہ اس کا نفس دنیا اور امارت کی محبت میں گرفتار تھا اس لیے وہ خیرخواہوں کی نصیحت اور ڈرانے والوں کی ترہیب کے باوجود ایسا کرنے سے قاصر رہا۔ یہ کہنا بجا ہے کہ اس نے حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں سے جنگ سے بچنے کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اسے اس کی توفیق ارزاں نہ ہوئی۔ دنیا کی ہوس رکھنے والے لوگ دنیا کے حصول کے لیے مردان کار کی شہامت اور باعزت لوگوں کی مروّت کو بھی بھول جایا کرتے ہیں ۔ بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے لیے کھڑا ہونے کو بھی بھول جاتے ہیں اور اس امر کو بھی کہ ان کے ہر عمل کا مواخذہ ہو گا، بلکہ وہ تو دنیا کے نشے میں بدیہی امور کو بھی طاق نسیان پر رکھ دیتے ہیں ، وہ اس حقیقت کو بھول
[1] تاریخ الطبری: ۶/۳۴۲۔ [2] بخاری، رقم الحدیث: ۷۱۵۰۔ [3] مواقف المعارضۃ، ص: ۲۹۷۔ [4] القید الشرید، ورقۃ: ۱۳۔ [5] الدولۃ الامویۃ، ص: ۱۷۲۔ [6] عبدالملک بن مروان و الدولۃ الامویۃ، ص: ۱۰۵۔ [7] ایضا، ص: ۱۰۵۔