کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 57
نہیں کر سکتا۔ جب عمر بن سعد کو ابن زیاد کا خط ملا تو اس نے کہا: اللہ کی قسم حسین رضی اللہ عنہ سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔ حسین رضی اللہ عنہما ایک خوددار اور غیور انسان ہیں ۔[1] عبیداللہ بن زیاد بدباطن اور ظالم حکمران تھا، یہ وہی ابن زیاد ہے کہ جب صحابی رسول عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ اس کے پاس آئے تو انہوں نے اس سے فرمایا: میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: سب سے برا چرواہا بے رحم چرواہا ہوتا ہے، تو اپنے آپ کو ان میں شمار ہونے سے بچا، اس پر ابن زیاد نے ان سے کہا: بیٹھ جا، تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوسی ہے۔ انہوں نے فرمایا: کیا اصحاب رسول بھی بھوسی ہیں ؟ اس قسم کے لوگ ان کے بعد آئے اور ان کے غیر میں آئے۔[2] ابن زیاد کے لیے ضروری تھا کہ وہ حسین رضی اللہ عنہ کے مطالبات کو تسلیم کر لیتا اور انہیں یزید کے پاس جانے کے لیے آزاد چھوڑ دیتا یا وہ جہاں بھی جانا چاہتے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرتا اور خاص طور پر ان کے لیے کوفہ کا راستہ کھلا چھوڑ دیتا۔[3] ابن صلاح اپنے فتاویٰ میں رقم طراز ہیں : ’’اصل بات یہی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دینے والا جس کا نتیجہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کی صورت میں سامنے آیا وہ ابن زیاد ہی ہے۔‘‘[4] یوسف العش رقم طراز ہیں : ’’ہمارے لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کا پہلا ذمہ دار شمر ہے اور دوسرا عبیداللہ بن زیاد۔‘‘[5] صحیح بات یہ ہے کہ اس دل فگار واقعہ کی پہلی ذمہ داری اور سب سے بڑا گناہ ابن زیاد کے کندھوں پر ہے، کیونکہ اس سارے واقعہ کے پیچھے اسی کا شیطانی دماغ کام کر رہا تھا اور اسی نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیش کش کو مسترد کیا تھا۔ تاریخ ہمیشہ اس کے اس فعل بد کی بڑی شدت کے ساتھ مذمت کرتی رہے گی اور اس پر بربریت و سرکشی کا التزام لگاتی رہے گی۔[6] امام ذہبی عبیداللہ بن زیاد کے ترجمہ کے آخر میں لکھتے ہیں : ’’اہل تشیع جب تک ابن زیاد اور اس جیسے دوسرے لوگوں پر لعنت نہ کریں ان کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا، مگر ہم اللہ کے لیے ان سے نفرت کرتے ہیں ، ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں ، مگر ان پر لعنت نہیں کرتے، ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔‘‘[7] ۳۔ عمر بن سعد بن ابی وقاص:… قتل حسین رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری اپنے لشکر کے قائد عمر بن سعد پر بھی عائد
[1] الفرق بین الفرق، ص: ۳۷۔