کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 56
بغدادی اپنی کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘ میں رقم طراز ہیں : کوفہ کے رافضی غدر و بخل کے ساتھ مصروف ہیں ، یہاں تک کہ ان کے بارے میں ضرب المثل ہے: ’’کوفی سے زیادہ بخیل اور کوفی سے بڑھ کر بے وفا‘‘ اہل کوفہ کی غداری اور بے وفائی کے بارے میں تین چیزیں بڑی مشہور ہیں : (۱) انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی اور پھر ان کے ساتھ بے وفائی کرتے ہوئے سنان جعفی نے انہیں نیزہ مار کر زخمی کر دیا۔ (۲) انہوں نے یزید کے خلاف حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی مدد کرنے کے لیے انہیں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی جن کی وجہ سے آپ ان کے دھوکے میں آ گئے اور پھر ان کی طرف روانہ ہو گئے۔ مگر جب وہ کربلا پہنچے تو ان کے ساتھ غداری کرتے ہوئے عبیداللہ کے ساتھ جا ملے، یہ انہی کی بے وفائی کا نتیجہ تھا کہ نہ صرف یہ کہ آپ خود بلکہ آپ کے خاندان کے زیادہ تر افراد کو کربلا کے میدان میں شہید کر دیا گیا۔ (۳) انہوں نے زید بن علی بن حسین کے ساتھ بے وفائی کرتے ہوئے نقض بیعت کا ارتکاب کیا اور انہیں ہولناک جنگ کے دوران میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔[1] قتل حسین رضی اللہ عنہ کی زیادہ تر ذمہ داری اہل کوفہ پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور اپنے عہد و پیمان کو توڑ ڈالا۔ ۲۔ عبیداللہ بن زیاد:… ابن زیاد نے حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی طاقت اور جبر و استبداد کا بھرپور استعمال کیا۔ اس کوفی نے ابن زیاد کو جو پہلے ہی شر کی طرف میلان رکھتا تھا، اور طبعی طور پر انتہا پسند اور لوگوں کے خون کا پیاسا تھا اسے مزید شر کی طرف دھکیل دیا، اس کے لیے ممکن تھا کہ وہ شمر کے متشددانہ مذموم مقاصد کو ناکام بناتے ہوئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ امن و سلامتی کی تجاویز کو قبول کر لیتا، کم ظرف اور گھٹیا لوگ جو انحطاط کے بعد اوپر کو اٹھتے، کمزوری کے بعد طاقت پکڑتے اور محرومی کے بعد اقتدار حاصل کرتے ہیں ان کے لیے معزز و محترم اور باعزت لوگوں کے مقام و مرتبہ کا پاس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جن باوقار لوگوں کو عوام الناس کا پیار حاصل ہے اور وہ انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں انہیں اس منصب سے محروم کر دیا جائے۔ ابن زیاد کا شمار بھی اس قسم کے گھٹیا اور کمینے لوگوں میں ہوتا تھا، دنیوی اعتبار سے اس کا جو بھی مقام تھا مگر حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ ابن علی رضی اللہ عنہما نے ابن زیاد سے بیعت کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا اور فرمایا: میں ایک ذلیل غلام کی طرح اس سے بیعت
[1] مواقف المعارضۃ، ص: ۲۸۶۔ [2] البدایۃ و النہایۃ نقلا عن مواقف المعارضۃ، ص: ۲۴۷۔ [3] انساب الاشراف: ۳/۲۲۷۔ [4] فضائل الصحابۃ: ۲/۷۸۲۔ [5] مسند احمد، رقم الحدیث: ۵۵۶۸۔ اس کی سند صحیح ہے۔