کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 55
پر بٹھا کر مدینہ منورہ پہنچایا[1] اور یزید کے گھر والوں نے ان کے لیے گریہ و زاری کی۔[2] قتل حسین رضی اللہ عنہ کے ذمہ دار : ۱۔ اہل کوفہ:… اہل کوفہ ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے مدینہ منورہ میں حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو خطوط لکھے اور ان سے کوفہ آمد کی درخواست کی، اس پر آپ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنبیہات کے باوجود ان کی طرف روانہ ہو گئے، پھر جب ابن زیاد کو کوفہ کا امیر متعین کیا گیا تو اہل کوفہ نے نہ صرف یہ کہ ان کی نصرت و حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا بلکہ وہ ان کے ساتھ جنگ کرنے والے اور قاتل گروہ میں شامل ہو گئے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہل کوفہ کے موقف کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : اہل کوفہ کے اکثر لوگوں نے انہیں دشمن کے حوالے کر دیا، بعض نے لالچ میں آ کر اور بعض نے ڈرتے ہوئے ان کی تائید و نصرت سے ہاتھ کھینچ لیا، جب حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کوفی لشکر کے بالمقابل آئے تو آپ نے اہل کوفہ کے زعماء کو آواز دیتے ہوئے فرمایا: اے شبث بن ربعی، اے حجار بن ابحر، اے قیس بن اشعث اور اے یزید بن حارث کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ پھل پک کر تیار ہو چکے اور صحن سرسبز و شاداب ہو چکے، آپ ایک تیار اور مسلح لشکر کے پاس آئیں گے، لہٰذا تشریف لے آئیے۔ وہ کہنے لگے: ہم نے تو ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ، کیوں نہیں ، و اللہ تم نے یہ کام کیا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: لوگو! اگر تم مجھے ناپسند کرتے ہو تو میں لوٹ جاتا ہوں ۔ [3] اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کو مدنظر رکھا جائے تو قتل حسین رضی اللہ عنہ کی تہمت اہل عراق کے سر آتی ہے۔ جب ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے اہل عراق پر لعنت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا، اللہ انہیں ہلاک کرے، انہوں نے انہیں دھوکہ دیا، اللہ ان پر لعنت فرمائے۔[4] جب ایک عراقی وفد نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حالت احرام میں مچھر کے دَم کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: اہل عراق! تم پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ تم نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تو قتل کر ڈالا اور مچھر کے دَم کے بارے میں سوال کرتے ہو۔[5]
[1] الطبقات: ۵/۳۹۷۔ [2] حقبۃ من التاریخ، ص: ۱۴۱۔ [3] الطبقات: ۵/۳۹۷۔ تاریخ الطبری: ۶/۳۹۳۔ [4] منہاج السنۃ: ۴/۵۵۹۔ [5] تاریخ الطبری: ۶/۳۹۳۔ [6] الطبقات: ۵/۳۹۷۔ مواقف المعارضۃ، ص: ۲۸۶۔ [7] الحجۃ فی بیان المحجۃ: ۲/۵۲۵، ۵۲۶۔ مواقف المعارضۃ، ص: ۲۸۶۔