کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 53
کے دربار میں پہنچے تو فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہما کہنے لگیں : اے یزید! کیا بنات رسول صلی اللہ علیہ وسلم قیدی ہیں ؟ اس نے کہا: نہیں ، آزاد ہیں ، باعزت ہیں ، تم اپنے چچا کی بیٹیوں کے پاس چلی جاؤ ، وہ تمہارے ساتھ وہی سلوک کریں گی جو میں نے کیا۔ فاطمہ کہتی ہیں : جب میں ان کے پاس گئی تو ابوسفیان کی اولاد میں سے کوئی عورت ایسی نہ ہو گی جو حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں رو نہ رہی ہو۔[1] جب علی (زین العابدین)بن حسین( رضی اللہ عنہ ) اندر تشریف لائے تو یزید کہنے لگا: تمہارے باپ نے مجھ سے قرابت کو منقطع کیا اور مجھ پر ظلم کیا، اب اللہ نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا تو وہ تم دیکھ ہی رہے ہو۔ علی بن حسین رضی اللہ عنہ معرکہ کربلا میں اپنی بیماری کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے تھے، انہیں دوسرے بچوں اور عورتوں کے ساتھ یزید کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔[2] علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے جواب میں اس قرآنی آیت کی تلاوت فرمائی: ﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌo﴾ (الحدید: ۲۲) ’’نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ خاص تمہاری جانوں پر مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوتی ہے یہ کام اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان ہے۔‘‘ یزید نے اپنے بیٹے خالد سے اس کا جواب دینے کا مطالبہ کیا تو وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ یزید کہنے لگا: اس کے جواب میں یہ آیت پڑھ دے: ﴿وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍ﴾ (الشوری: ۳۰) ’’تمہیں جو بھی مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہیں اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔‘‘ بعض تاریخی روایات میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کسی شامی نے یزید سے مطالبہ کیا کہ حسین رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی اسے دے دی جائے۔[3] مگر یہ کھلا جھوٹ ہے جو کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے علاوہ ازیں یہ آل حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ یزید کے احترام پر مبنی رویے کے بھی خلاف ہے، اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یزید نے آل حسین رضی اللہ عنہ کو عوام الناس کے سامنے پیش نہیں کیا تھا کہ ان میں سے جو چاہے اور جسے چاہے پسند کر لے۔[4]
[1] الامویون بین الشرق و الغرب: ۱/۱۵۳۔ [2] انساب الاشراف: ۳/۲۱۹، ۲۲۰، حسن سند کے ساتھ ۔ مواقف المعارضۃ، ص: ۲۰۸۔ [3] الاباطیل و المناکیر، جوزقانی: ۱/۲۶۵۔ اس کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں ، البتہ شعبی اور مدائنی میں انقطاع ہے۔ [4] الطبقات: ۵/۳۹۳۔ [5] المحن، ص: ۱۵۵۔ مواقف المعارضۃ، ص: ۲۸۲۔ [6] مواقف المعارضۃ، ص: ۲۸۳۔ [7] تاریخ طبری: ۵/۳۹۴۔