کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 444
نے ایسا ہی کیا۔ تین دن کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کے ہاں تشریف لے گئے اور دریافت فرمایا: پیاری بیٹی! تمہیں اپنے سرتاج کیسے لگے؟ انہوں نے جواب دیا وہ بہت اچھے ہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر فرمانے لگے اے عثمان یہ جبریل ہیں انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ام کلثوم کا نکاح آپ سے کر دیا ہے۔ رقیہ والا حق مہر مقرر کیا ہے اور انہی جیسا سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ یہ ربیع الاول ۳ ہجری کا واقعہ ہے ان کی رخصتی جمادی الاخریٰ میں ہوئی۔ شعبان ۹ ہجری میں سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی بیمار رہ کر وفات پا گئیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر کی نماز جنازہ پڑھی۔ حزن و ملال کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک ان کی قبر پر بیٹھے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اعصاب جواب دے گئے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کا پررونق چہرہ مرجھا گیا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے صدمے کو شدت سے محسوس کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قلق کا مداوا کرنے کے لیے فرمایا عثمان کی شادی کا اہتمام کرو اگر میرے ہاں تیسری بیٹی موجود ہوتی تو میں اسے بھی عثمان کے نکاح میں دے دیتا اور میں نے ان سے اپنی بیٹیوں کی شادی اللہ کی طرف سے وحی آنے کے بعد ہی کی تھی۔ یہ وہ اعزاز ہے جو تاریخ انسانی میں سوائے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے کسی فرد بشر کو حاصل نہیں ہوا۔ اسی لیے انہیں ذو النورین بھی کہا جاتا ہے۔