کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 443
سیدات کو مدینہ منورہ لے آئیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک گھرانے کے باقی افراد اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ بھی ان کے ہمراہ مدینہ منورہ پہنچ گئے اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی بڑی بہن سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ۲ ہجری میں غزوہ بدر کے فوراً بعد ہوا۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات اس گھرانے کے لیے یقینا ایک بڑا صدمہ تھا اور وہ بڑے غمگین تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بہت وفا شعار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت کرنے والے شخص تھے۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی ازدواجی زندگی نہایت قابل رشک تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے داماد سے کوئی شکوہ شکایت نہ تھی۔ ان کا حسب نسب بھی بڑا اعلی تھا۔ وہ نیک خصلت ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سخی بھی تھے۔ دولت مند بھی تھے اور اللہ نے دل بھی دیا تھا۔ سخاوت میں ان کے ہم پلہ کوئی کم ہی تھا۔ تین مرتبہ ہجرت کا اجر ثواب بھی لے چکے تھے۔ ادھر اللہ رب العزت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مخلص ساتھی سے بہت راضی تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو دنیا ہی میں ایک ایسا مرتبہ اور مقام نصیب ہوا جو پوری کائنات میں کسی کو نہیں ملا۔ غزوہ بدر میں جہاں فتح کی خوشیاں تھیں وہیں سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا صدمہ بھی تھا۔انہی دنوں میں سیدہ حفصہ بنت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پہلے خاوند بھی وفات پا گئے تھے۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ابھی چھوٹی عمر کی تھیں ۔ اس زمانے کے رواج اور شریعت کے تقاضوں کے عین مطابق سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شدید خواہش تھی کہ ان کی بیٹی کی شادی فوراً ہو جائے۔ انہوں نے ازخود سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ میری بیٹی حفصہ سے شادی کر لیں ۔ انہوں نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان کو معلوم ہو چکا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ کر چکے ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی خاموشی پر تعجب اور قدرے ناراضگی بھی ہوئی۔ اب وہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوئے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ میں نے عثمان کو اپنی بیٹی سے نکاح کی پیش کش کی مگر انہوں نے خاموشی اختیار کر لی اور کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس مسئلے کا اس سے بہتر حل موجود ہے، میں حفصہ سے نکاح کر لیتا ہوں اور عثمان کا نکاح اپنی بیٹی ام کلثوم سے کر دیتا ہوں ۔ اس طرح سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو عثمان رضی اللہ عنہ سے بہتر شوہر مل گیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بہتر سسر مل گیا۔ اس طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں آئیں اور یہ اعزاز اس امت میں اور سابقہ امتوں میں اور کسی کے حصے میں نہیں آیا سوائے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمن سے فرمایا میری صاحب زادی ام کلثوم کو تیار کر کے عثمان کے گھر پہنچا دو اور اس کے پاس دف بجاؤ ۔ انہوں