کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 407
بنایا تھا، اسی وجہ سے ان کو زید بن محمد کہا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس نسب کو منقطع کر دیا اور یہ آیت نازل فرمائی:
﴿اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ﴾ (الاحزاب: ۵)
’’ان کے باپوں کے نام کے ساتھ ان کو پکارو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے۔‘‘
پھر زینب کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کرا کے اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو موکد کر دیا اور یہ آیت نازل فرمائی:
﴿اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ﴾ (الاحزاب: ۵)
’’ان کے باپوں کے نام کے ساتھ ان کو پکارو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے۔‘‘
اس واقعے کے سلسلے میں یہ آیت بھی نازل ہوئی:
﴿فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا﴾ (الاحزاب: ۳۷)
’’پس جب زید کا ان سے جی بھر گیا تو ہم نے آپ کی شادی ان کے ساتھ کر دی۔‘‘
سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا دین، تقویٰ اور سخاوت میں عورتوں کی سردار تھیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلے ان ہی کی وفات ۲۰ ہجری کو ہوئی۔
سیّدہ زینب بنت جحش کے فضائل و مناقب:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی شادی اپنے نبی کے ساتھ خود کرائی۔
﴿وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْٓ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہِ وَ تَخْشَی النَّاسَ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًاo﴾ (الاحزاب: ۳۷)
’’اس وقت کو یاد کرو جب آپ اس شخص سے فرما رہے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا اور آپ نے بھی انعام کیا کہ اپنی بیوی (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دو، اور اللہ سے ڈرو، اور آپ اپنے دل میں ایک بات کو چھپا رہے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔ اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ اس بات کا سب سے زیادہ سزا وار ہے کہ آپ اس سے ڈریں ، پھر جب زید کا اس سے جی بھر گیا تو ہم نے آپ کی شادی اس کے ساتھ کر دی، تاکہ مومنین کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی تنگی نہ ہو، جب ان سے ان کا جی بھر
[1] مسند احمد: ۶/۲۹۶، ۶/۳۰۴، شیخ شعیب ارناؤوط نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردہ (ربیب) عمرو ابن ابو سلمہ سے روایت ہے، جس میں وہ حضرت ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں : اے اللہ کے رسول! کیا میں ان کے ساتھ ہوں ؟ آپ نے فرمایا: تم اپنی جگہ پر ہو، تم خیر کی طرف جانے والی ہو، یہ روایت صحیح ہے، اس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے، حدیث: ۳۸۱۲، البانی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، اس حدیث میں ام سلمہ کی فضیلت واضح ہے۔
[2] مکمل حدیث کے لیے دیکھئے: مسند امام احمد: ۴/۳۲۳، شیخ شعیب ارناؤوط نے اس کو حسن کہا ہے۔