کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 38
قیادت راشدہ، محکم تنظیم، طویل منصوبہ بندی، افراد کی توثیق اور مادی و معنوی تیاری کی شدید ضرورت ہوا کرتی ہے۔ ہم یہ بات برملا کہہ سکتے ہیں کہ مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ نے جن تخمینوں پر اعتماد کیا تھا وہ بالکل غلط اور غیر صحیح تھے۔ مسلم بن عقیل رحمہ اللہ نے یہ سمجھا کہ بہت سارے عوام الناس کے جذبات ہی کامیابی کا واحد راستہ ہیں ۔ لہٰذا انہوں نے نہ تو کوفہ کے زعماء کی تائید حاصل کرنے یا ان کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ اپنی ہم نوا جمعیتوں کو ان کی معینہ خصوصیات کے مطابق منظم ہی کیا۔ دوسری طرف ان کے حامی ومددگار ہانی بن عروہ تھے جن کا شمار ان ممتاز لوگوں میں ہوتا تھا جنہوں نے مسلم بن عقیل کی مدد کی، انہوں نے اپنے قبیلے کی قوت اور کثرت پر اعتماد کیا اور وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ چونکہ وہ مراد قبیلے کے سردار ہیں جس کے جنگجو زرہ پوش جوانوں کی تعداد تیس ہزار افراد تک پہنچتی تھی لہٰذا وہ کسی بھی قسم کی سزا سے بالاتر ہیں ۔ مگر ان کا تخمینہ بھی غلط ثابت ہوا۔ اس لیے کہ لوگوں کے وہ قدیم روابط کمزور پڑ گئے تھے جن کی وجہ سے قبیلہ کو طاقت کا مرکز سمجھا جاتا تھا اور قبیلہ کا سردار قوم کا ایسا قائد ہوتا تھا جس کے احکام کی بلاتردّد تعمیل کی جاتی تھی۔ زیاد بن ابی سفیان کی ولایت کے ایام میں ارباع کی تقسیمات کا ان روابط کو کمزور بنانے میں بڑا اہم کردار تھا، اسی طرح عطیات کے نظام نے قبائل کے مفادات کو اموی اقتدار کے ساتھ مربوط کر دیا تھا۔ جن تخمینہ جات پر ہانی بن عروہ نے ارتکاز کیا اور جس کے لیے انہوں نے قبیلہ پر اعتماد کیا وہ سب کچھ ناکارہ ثابت ہو گیا۔[1] مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت پر یہ مرثیہ کہا گیا:
فان کنت لا تدرین ما الموت فانظری
الی ہانی فی السوق و ابن عقیل
اصابہما امر الامام فاصبحا
احادیث من یسعی بکل سبیل
الی بطل قد ہشم السیف وجہہ
و آخر یہوی من طمار قتیل
تری جسدا قد غیر الموت لونہ
و نضح دم قد سال کل مسیل
فان انتم لم تثاروا باخیکم
فکونوا بغیا ارضیت بقلیل[2]
[1] البدایۃ و النہایۃ: ۱۱/۴۹۰۔
[2] ایضا: ۱۱/۴۹۰۔ تاریخ الطبری: ۶/۳۰۲۔
[3] تاریخ الطبری: ۶/۳۲۰۔
[4] الامویون بین الشرق و الغرب: ۱/۲۰۵۔