کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 37
ان سے اپنے ہاتھ نہیں روکیں گے۔ پھر اس نے مسلم بن عقیل کے بارے میں حکم دیا تو انہیں محل کی چھت پر پہنچایا گیا، اس دوران میں وہ تکبیر و تہلیل ، تسبیح و تحمید اور توبہ و استغفار کر رہے تھے۔ آپ یہ بھی فرما رہے تھے: اے اللہ! ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے ہم سے جنگ کی اور ہمیں بے یار و مددگار چھوڑا فیصلہ فرما، پھر بکیر بن حمران نام کے آدمی نے ان کی گردن اڑا دی پھر ان کا سر محل سے نیچے پھینک دیا اور اس کے بعد ان کا جسم بھی۔[1] ۵۔ ہانی بن عروہ کا قتل:… عبیداللہ بن زیاد کی کارروائیاں اس کے ظلم و جبر اور قساوت قلبی پر دلالت کرتی ہیں ، اس کے حکم سے ہانی بن عروہ کو بازار میں لا کر قتل کر دیا گیا، ہانی اپنے قبیلے مذحج کو چیخ چیخ کر بلاتے رہے مگر کوئی بھی ان کی مدد کے لیے آگے نہ بڑھا، ہانی اور مسلم کو بازار میں لوگوں کے سامنے صلیب پر لٹکا دیا گیا۔[2] پھر ان لوگوں کی بھی گردنیں اڑا دی گئیں جو مسلم بن عقیل کی مدد کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے اور پھر انہیں بھی بھرے بازار میں صلیب پر لٹکا دیا گیا۔[3] ابن زیاد یہ بھی کر سکتا تھا کہ وہ مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کو دمشق میں خلیفہ کے پاس بھجوا دیتا اور وہ انہیں قید میں ڈال دیتا یا ان کے بارے میں درگزر سے کام لیتے ہوئے آئندہ کے لیے مسلمانوں کو خوں ریزی سے بچا لیتا اور ان میں عداوت اور بغض و کینہ جیسے جذبات کو مزید بڑھنے سے روک لیتا۔ اس طرح ابن زیاد نے اپنی حکومت کے متشددانہ اور ظالمانہ ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا اور یہ کہ وہ اپنے باپ زیاد سے بھی زیادہ خوں ریزی کی قیمت پر اپنے اقتدار کو بچانے اور اسے طول دینے کی پالیسی پر گامزن تھا۔ بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ مسلم بن عقیل رحمہ اللہ ایسے تجربہ کار سیاست دان نہیں تھے جو بڑے محتاط انداز میں مستقبل کا جائزہ لیتا اور مختلف امور کو گزشتہ واقعات کے ترازو میں تولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بیعت کرنے والوں کی کثرت، ان کے رونے دھونے اور حسین رضی اللہ عنہ کی مدد کے پختہ وعدوں کے دھوکے میں آ گئے اور پھر جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حسین رضی اللہ عنہ کو فوراً کوفہ آنے کے لیے خط لکھ دیا جس میں انہیں یہ بھی بتایا کہ ان کی بیعت کے لیے حالات سازگار ہیں ۔[4] نظام بدلنے اور حکومتیں تبدیل کرنے کے لیے صرف جذبات کافی نہیں ہوا کرتے بلکہ اس کے لیے
[1] البدایۃ و النہایۃ: ۱۱/۴۸۸۔ تاریخ الطبری: ۶/۲۹۷۔ [2] تاریخ الطبری: ۶/۲۹۸۔