کتاب: سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے - صفحہ 36
کوفہ والوں کی قید میں ہے اور شاید اسے کسی وقت بھی قتل کر دیا جائے، اس کا آپ کے لیے پیغام ہے کہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہیں سے لوٹ جائیں اور اہل کوفہ کے دھوکہ میں نہ آئیں ۔ اہل کوفہ تمہارے باپ کے وہ ساتھی ہیں جن سے وہ طبعی موت یا قتل کے ذریعے سے جدا ہونے کے متمنی تھے، اہل کوفہ نے تمہاری بھی تکذیب کی اور میری بھی، اور جھوٹے آدمی کی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ محمد بن اشعث کہنے لگا: و اللہ! میں ایسا ضرور کروں گا، اور میں ابن زیاد کو یہ بھی بتلا دوں گا کہ میں نے تمہیں امان دے دی ہے۔ پھر اس نے ایاس بن عباس طائی کو بلایا اور اس سے کہا کہ جاؤ اور حسین رضی اللہ عنہ سے ملاقات کر کے ان تک یہ خط پہنچاؤ، پھر اس نے اس کے لیے سواری کا انتظام کیا اور اس کے گھر اور اہل و عیال کی ذمہ داری قبول کر کے اسے حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھجوا دیا۔[1] بعدازاں ابن اشعث نے مسلم بن عقیل کو ابن زیاد کے حوالے کر دیا اور اسے بتایا کہ میں انہیں امان دے چکا ہوں ، اس پر ابن زیاد کہنے لگا: ہم نے تجھے انہیں امان دینے کے لیے نہیں بھیجا تھا۔ پھر اس نے اس کی امان کو مسترد کر دیا۔[2] ابن زیاد کے محل کے دروازے پر انہوں نے پانی کا مطالبہ کیا تو عمار بن عقبہ ٹھنڈا پانی لے کر آیا مگر آپ کو اسے پینے کی ہمت نہ ہوئی اس لیے کہ اس میں اس کا خون ملا تھا۔ جب مسلم ’’ابن زیاد‘‘ کے پاس گئے تو وہ کہنے لگا: میں تمہیں قتل کرنے والا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا: اگر مجھے اجازت ہو تو میں اپنی قوم کے بعض افراد کو وصیت کر لوں ، اس نے اس کی اجازت دے دی تو آپ نے وہاں موجود لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں عمر بن سعد بن ابی وقاص نظر آئے۔ آپ نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا: عمر! میرے اور تمہارے درمیان قرابت داری ہے اور مجھے تم سے ضروری کام ہے۔ تم میرے ساتھ محل کے کونے تک چلو تاکہ میں تم سے کوئی بات کر سکوں ۔ مگر اس نے ابن زیاد کی اجازت کے بغیر ایسا کرنے سے انکار کر دیا، وہ وہاں سے اٹھ کر ابن زیاد کے قریب ہوئے تو مسلم اس سے کہنے لگے: کوفہ کے کچھ لوگوں کا میرے ذمے سات سو درہم قرضہ ہے وہ میری طرف سے ادا کرنا، میرا جثہ ابن زیاد سے وصول کر کے اس کو دفنا دینا اور حسین رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام بھجوانا۔ قبل ازیں میں نے انہیں لکھا تھا کہ لوگ ان کے ساتھ ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اب وہ ادھر آ رہے ہوں گے۔ یہ سب کچھ سن کر عمر نے ابن زیاد کو مسلم بن عقیل کی باتوں سے مطلع کیا ۔ ابن زیاد نے ان تمام باتوں کو نافذ کر دیا اور پھر کہنے لگا: اگر حسین ہمارے پاس نہ آئے تو ہم ان کے پاس نہیں جائیں گے اور اگر انہوں نے ہمارے بارے میں کوئی غلط ارادہ کیا تو ہم
[1] مواقف المعارضۃ، ص: ۲۵۷۔ الطبقات: ۵/۳۷۴۔
[2] تاریخ الطبری: ۶/۲۹۳۔
[3] سیر اعلام النبلاء: ۳/۳۰۸۔